ہندوستان میں تقریبا 98 کروڑ موبائل فون اور 20 کروڑ انٹرنیٹ کنکشن ہیں
ہندوستان میں ٹیلی مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے ٹیلی کام کمپنیوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی خدمات کو بہتر بنائ?ں یا پھر کوئی دوسرا کاروبار کریں۔
انھوں نے بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں یہ واضح کیا کہ اچھی خدمات دینا ان کمپنیوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
پرساد نے بھارت میں موبائل فون اور انٹرنیٹ خدمات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’بیان بازی سے کام نہیں چلے گا۔ عوام کو اچھی خدمات فراہم کرنا ان کمپنیوں کے حق میں ہے اور ان کی یہ ذمہ داری بھی ہے۔‘
خیال رہے کہ ملک کی 125 کروڑ کی آبادی میں تقریبا 98 کروڑ موبائل فون اور 20 کروڑ انٹرنیٹ کنکشن ہیں۔
بھارت ٹیلی کام صارفین کی تعداد کے حساب سے دنیا کے بڑے بازاروں میں سے ایک ہے۔ لیکن خدمات اطمینان بخش نہیں ہیں۔
ٹیلی کام کمپنیوں کا کہنا ہے کہ لائسنس اور ٹیکس کی شرحیں بہت زیادہ ہیں اور اس وجہ سے اس کاروبار میں انھیں مناسب فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔
مرکزی وزیر نے موبائل کمپنیوں کو واضح انداز میں پیغام دیا ہے
مرکزی وزیر مواصلات نے اس شکایت کو سرے سے مسترد کرتے ہوئے کہا: ’ان کمپنیوں کی سہ ماہی رپورٹ آتی ہے، اس میں وہ منافع دکھاتے ہیں یا نہیں؟ سپیکٹرم کی بولی لگتی ہے تو وہ بولی لگانے آگے کیوں آتے ہیں؟‘
جو کمپنیاں خسارے کی بات کر رہی ہیں، ان کے لیے روی شنکر پرساد کا پیغام واضح ہے کہ ’اگر آپ کو یہ کاروبار مناسب نہیں لگتا ہے تو آپ باہر جائیے، دوسرے لوگ آئیں گے۔ یہ بات درست نہیں کہ آپ اپنی کمزوریاں دور نہیں کریں اور دوسروں پر الزام لگائ?ں۔‘
کچھ سال پہلے تک ٹیلی کام کو ہندوستان کی کامیاب ترین صنعتوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ اس میں تیزی سے توسیع ہو رہی تھی اور کمپنیوں کی کمائی آسمان چھو رہی تھی لیکن ان دنوں کمپنیاں کہتی ہیں کہ ان کی کمائی بہت کم ہوگئی ہے۔
ہندوستان میں حال میں موبائل خدمات میں پریشانیاں آئی ہیں
دہلی میں بی بی سی کے نمائندے زبیر احمد کا کہنا ہے کہ اس کا براہ راست اثر صارفین پر نظر آ رہا ہے۔ وہ موبائل فون پر بات کر رہے ہوتے ہیں اور اچانک لائن ڈراپ ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات تو رابطہ ہی نہیں ہو پاتا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے فون یا کمپیوٹر پر کوئی ای میل لکھ رہے ہوتے ہیں یا کسی ویب سائٹ پر کچھ پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اچانک انٹرنیٹ کام کرنا بند کر دیتا ہے۔
ٹیلی کام کمپنیوں کے مطابق، حکومت سپیکٹرم کے لائسنس کی شرح کافی بڑھا کر رکھتی ہے۔ انھیں بینکوں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ لیکن حکومت کہتی ہے یہ ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے محض بہانہ ہے۔
روی شنکر پرساد کہتے ہیں: ’اگر شرح اونچی ہے تو اسپیکٹرم کی نیلامی میں وہ آگے بڑھ کر حصہ کیوں لیتے ہیں؟‘
ہندوستان ٹیلی کام صارفین کی تعداد کے حساب سے دنیا کے بڑے بازاروں میں سے ایک ہے۔ لیکن خدمات اطمینان بخش نہیں ہیں
بینکوں سے قرض لینے کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’دنیا کی کون سی کمپنی بینک سے قرض نہیں لیتی؟ یہ تو جدید کاروبار کا ایک مسلمہ بزنس ماڈل ہے۔‘
حال میں حکومت ہند نے سپیکٹرم کی نیلامی کی تھی، جس سے اسے ایک لاکھ دس ہزار کروڑ روپے کی آمدن ہوئی۔
پرساد کہتے ہیں: ’وہ سپیکٹرم مانگ رہے تھے، ہم نے دیا۔ اب ان کمپنیوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو اچھی خدمات فراہم کریں۔‘