عابد انور
وزےر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے لال قلعہ کے فصےل سے جہاں پاکستان کوکھری کھوٹی سنائی تھی وہےں انہوں نے ملک مےں فرقہ پرستی پر تشوےش کا اظہار کےا تھا اور ببانگ دہل کہا تھاکہ ترقی پذےر اور سےکولر ملک مےں فرقہ پرستی کےلئے کوئی جگہ نہےں ہے۔ اےسی سوچ ہمارے معاشرے کو تقسےم اورجمہورےت کو کمزور کرتی ہے۔تمام سےاسی جماعتوں اور سماج کے تمام طبقوں سے فرقہ وارانہ سوچ پر قدغن لگانے کی اپےل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی ثقافت کی ان رواےات کو مضبوط کرنا ہوگا جو ہمےں دےگر نظرےات کے تئےں روادار ہونا سکھاتی ہےں۔ ےہ صرف تقرےرکا اےک حصہ ہے اس کا حقےقت سے کوئی واسطہ نہےں ہے۔ سوال ےہ ہے کہ وزےر اعظم نے گزشتہ نو برسوں مےں فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لئے کےا کےا؟ کون سے اقدامات کئے؟ انسداد فرقہ پرستی بل اب تک دھول چاٹ رہاہے وزےر اعظم نے کبھی اس کی گرد کو بھی صاف کرنے کی کوشش نہےں کی۔ فرقہ پرست عناصر پورے ملک مےں دندناتے پھر رہے ہےںلےکن کسی حکومت نے اس پر لگام لگانے کی کوشش نہےں کی ۔ اشتعال انگےز تقرےر کے معاملے مےں اکبرالدےن اوےسی کو تو جےل مےں ڈال دےا لےکن آندھرا پردےش اور مرکز کی کانگرےس حکومت نے پروےن توگڑےاےوگی آدتےہ ناتھ، اوما بھارتی، اشوک سنگھل،ورون گاندھی اور سوامی کے خلاف کون سی کارروائی کی؟ ہندوستان مےں جتنے بھی فسادات ہوئے ہےں اس کے کسی خاطی کو سزا نہےں دی گئی تو پھر وزےر اعظم کس طرح فرقہ پرستی روکنے کی بات کررہے تھے، کےا تقرےر اور ہمدردی کے چند بول سے مسلمانوں کا منظم قتل عام کا سدباب ہوجائے گا؟ وزےر اعظم کام اےکشن لےنا، عمل کرانا ہوتاہے نہ کہ اپےل کرنا، اپےل تو حزب اختلاف کے لوگ کرتے ہےں کےوں کہ اس کے بس مےں صرف اپےل کرنا ہی ہوتا ہے جب کہ عمل کی کنجی حکومت کے پاس ہے ۔ ہندوستان سے اگرفرقہ وارانہ نظرےات کو ختم کرنا چاہتے ہےں کہ تو پہلے وزےر اعظم کوکانگرےس کے اندرکی صفائی کرنی ہوگی۔ کانگرےس میں آج بھی فرقہ پرست خےالات رکھنے والے افراد کی کثےر تعداد ہے جو بابری مسجد کے قضےہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کا فےصلہ آنے سے اےک دن قبل ہی مٹھائی تفسےم کرتے ہےں۔ اس سے اندازہ لگاےا جاسکتا ہے ان کی پہنچ کہاں تک تھی اور ان کو بابری مسجد کے فےصلہ کے بارے مےں پہلے سے علم تھا۔اس وقت کے وزےر اعلی وےربہادر سنگھ نے واضح لفظوں مےں کہا تھا کہ بابری مسجدکا تالا کھلوانے اس مےں ان کا کوئی ہاتھ نہےں ہے جو کچھ ہوا ہے وہ سب اوپر ہوا ہے۔ اس کا ثبوت ےہ ہے کہ دو دن پہلے عدالت مےں تالا کھولنے کے لئے مقدمہ دائر کےا جاتا ہے اور دو دن کے اندر تالا کھولنے کا فےصلہ سنادےا جاتا ہے اور فےصلہ سنانے کے بعد 40 منٹ کے اندر تالا کھول دےا جاتا ہے ۔ تالا کھولنے والے واقعہ کو براہ است ٹےلی کاسٹ کے لئے دوردرشن سے ٹےم پہنچ جاتی ہے۔تارےخ کبھی اےسا نہےں ہوا ہے کہ فرےق اپےل کرنے کا موقع بھی نہ دےا جائے اور اتنی جلد فےصلہ پر عمل ہوجائے۔ اس سے اندازہ لگاےا جاسکتا ہے کہ اسکرپٹ پہلے لکھی جاچکی تھی اور اسکرپٹ کے مطابق اس پرعمل کےا گےا۔ جج کا فےصلہ نہےں حکومت کا فےصلہ کا تھا۔ ےہی وجہ ہے کہ کانگرےسی حکومت نے کبھی بھی فرقہ وارانہ فسادات پر سخت موقف اختےار نہےں کےا اور نہ ہی فسادےوں کے خلاف کوئی کارروائی کی البتہ تقرےر کے مےدان مےں تما م رہنماﺅں کی لمبی چوڑی تقرےر ہے لےکن عمل کا مےدان صفرسے پر ہے۔ اگر اشتعال انگےز تقرےر کرنے والوں کو سزا دی گئی ہوتی مظفر نگر فسادات نہےں ہوتے اور اس وقت جبکہ پانچ رےاستوں مےں اسمبل انتخابات ہونے والے ہےں فرقہ پرست عناصر کبھی 84کوس پرےکرما، تو کبھی سنکلپ سبھا تو کبھی کسی ےاترا وغےرہ کا نعرہ بلند کرکے فرقہ پرست طاقتےں مسلمانوں کو خوف کرنے پر کمر بستہ ہےں۔ فرقہ پرست جماعت اپنی رےلےوں مےں کھلا کھلم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کر رہی ہےں لےکن انتظامےہ کو اس کی کوئی پرواہ نہےں ہے۔ جج پانڈے وکےل پانڈے ہو تو کسی انصاف کی توقع کےسے کی جاسکتی ہے۔
فرقہ پرست اور فاسشٹ طاقتیں ہمےشہ اسی تاک مےں رہتی ہےں کہ جھوٹ بار بار اور ڈھٹائی کے ساتھ اس قدر بولا جائے کہ سننے والوں کو سچ لگنے لگے ۔آج تک فسطائی طاقتوں نے ےہی کےا ہے خاص طور پر ہندوستان مےں اس کی کھےتی وسےع پےمانے پر کی جارہی ہے اور اس کے لئے سازگار بھی ہے ۔ روزانہ نئے نئے شگوفے سامنے آتے ہےں مےڈےا کا اےک بڑا طبقہ اس کام مےںمنہمک رہتا ہے اور حالات کو اپنے زور قلم کے سہارے موڑنے کے لئے زمےن آسمان اےک کردےتا ہے۔ مظفر نگر فسادات اس کے اسی جھوٹ کا مظہر ہے۔ تمام رپورٹوں سے ےہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس مےں کس کا نقصان ہوا ہے لےکن مےڈےا ، سوشل مےڈےا اور دےگر ذرائع ابلاغ مےں ےہی پروپےگنڈہ کےا جارہاہے کہ مظفر نگر مےں ہندﺅں کا زبردست نقصان ہورہا ہے۔وہاں مجرموں کو بچانے کے لئے خواتےن کا بڑے پےمانے پر استعمال کےا جارہا ہے۔ جب بھی پولےس گرفتار کرنے جاتی ہے خواتےن کو ڈھال کے استعمال کےا جاتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ وہاں کون کون اس فسادات کو بڑھاوا دےنے مےں شامل تھے اس کے باوجود وہ کھلے عام گھوم رہے ہےں ۔ افسوس کا مقام ےہ ہے کہ جن پر فسادات بھڑکانے کی سربراہی کا الزام ہے اس پارٹی اسی کو تحقےقاتی ٹےم کا سربراہ مقرر کےا ہے۔ ےہ اےسا ہی ہے جےسے کہ گجرات قتل عام کا نرےندر مودی کو سربراہ مقرر کردےا جائے۔
پانچ رےاستوں کے انتخابات مےں مہنگائی اور بدعنوانی کہےں موضوع نہےں ہے۔ کہےں بھی دلائل سے اےک دوسرے کو مات نہےں دی جارہی ہے بلکہ ذاتی اور رکےک حملے کئے جارہے ہےں۔ کانپور کی رےلی مےں اترپردےش کے وزےر اعلی کلےان سنگھ نے ہندوتوا ، رامندر اور مظفر نگر جےسے حساس مسئلے کو اٹھاکر ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کی۔ بی جے پی کی خمےر مےں ےہ بات ہے کہ فساد کی آگ بھڑکاﺅ اور ووٹ حاصل کرو۔ بی جے پی نے متنازعہ رام مندر کا موضوع اٹھاکر اےک بار پھر ہندو ووٹ کو اپنی طرف کھےنچے کی کوشش کی ہے۔ 2004 مےں جب بی جے پی اقتدار سے بے دخل ہوئی تھی تو اس وقت بی جے پی نے محسوس کےا تھا کہ وہ تشدداور فرقہ وارنہ خطوط پر ملک کو تقسےم کرکے ہی اقتدار کی سےڑھی چڑھ سکتی ہے اسی لئے اس نے ہمےشہ تشدد کی حماےت کی ہے اور اپنے بازوﺅں کو ہمےشہ کسی نہ کسی سطح پر تشدد کے لئے اکساتی رہی ہے۔ لےکن جب اقتدار مےں ہوتی ہے تو بی جے پی کا لہجہ بدل جاتا ہے اور خود سےکولر ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے او ر اقتدار کا نشہ اس قدر چڑھ جاتا ہے کہ وہ رام مندر کو بھول جاتی ہے ۔9 اگست 2003 کو اس وقت کے نائب وزےر اعظم اور وزےر داخلہ اےل کے اڈوانی نے پہلی بار واضح طور پر کہا تھا کہ مرکز کی حکمراں بی جے پی رام مندر کی تعمےر کے لئے اپنی حکومت کی قربانی نہےں دے گی۔ وشو ہندو پرےشد نے حکومت پر دباﺅ ڈالتے ہوئے کہا تھاکہ بھارتےہ جنتا پارٹی بل کے ذرےعہ رام مندر کی تعمےر کا راستہ ہموارے کرے۔ مسٹر اڈوانی نے ےہ بات صحافےوں سے حےدرآباد جاتے ہوئے کہی تھی۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ مےں کہا تھا کہ جب تک اےن ڈی اے اور ےہاں تک کے اپوزےشن پارٹےوں مےں رام مندر کے مسئلے پر اتفاق رائے قائم نہےں ہوجاتی اس وقت بل نہےں لاےا جاسکتا۔ دوسرابےان مسٹر اڈوانی نے اس وقت دےا جب وہ اقتدار مےں نہےں تھے ۔19 جون 2008 کو انہوں نے اجودھےا مےں رام مندر کی تعمےر کی وکالت کی ۔ انہوں نے ےہ بات اس وقت کہی تھی جب تےلگو زبان کی شری رام مندر نام کی ہندی مےں ڈب کی گئی ورژن کو دےکھی تھی۔ انہوں نے مزےد کہا تھا کہ شری رام کے وقار کے لئے پورے ہندوستان مےں رام مندر کی تعمےر ہونی چاہئےے۔27 اکتوبر2004 کو مسٹر اڈوانی اسی سلسلے مےں اےک اور بےان دےا تھا جس مےں انہوں نے کہا تھا کہ پارٹی ا ب بھی اجودھےا مےں رام مندر بنانے کے عہد کا پابند ہے۔ ےہ بےان انہوں نے اس وقت دےا جب بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل ہوئے مشکل سے چھ مہےنے بھی نہےںہوئے تھے اور انہوں نے ےہ بےان پارٹی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد دےا تھا۔
آئندہ ماہ سے ہونے والے پانچ رےاستوں کے اسمبلی انتخابات اور 2014کے لوک سھا انتخابات مےں فرقہ پرستی کو فروغ دےکر فرقہ پرست طاقےں اپنی کشتی پار لگانے کی کوشش کرے گی۔ راجستھان، مدھےہ پردےش، چھتےس گڑھ اور دہلی مےں راست مقابلہ کانگرےس اور بی جے پی کے درمےان ہے۔اروناچل پردےش مےں بی جے پی کا کوئی وجود نہےں ہے۔لےکن چاروں رےاستوں کے انتخابات خصوصاَ دہلی، راجستھان اور مدھےہ پردےش مسلمانوں کے خصوصےت کے حامل ہےں۔مسلمانوں کو رےزروےشن، دفعہ 341 کے فوائد سے مسلمانوں کو استثنی کرنے کی قےد ختم کرنا اور مساوی مواقع کے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمر کس لےناچاہئے۔ ےہاں مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر امےدوار کو منتخب کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اسمبلی انتخابات مےں کس پارٹی کو ووٹ دےنا اور کس کو نہےں ، ےہ فےصلہ کرنے سے پہلے ےہ اچھی طرح ذہن نشےن رکھنا چاہئے کہ ان رےاستوں مےں کانگرےس اقتدار مےں ےا آئے ےا بی جے پی ہندوﺅں کو کوئی فرق نہےں پڑتا لےکن مسلمانوں کو اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آرہی ہے۔ ان کی ذرا سی بھول پانچ برس ہی نہےں اےک لمبا عرصہ تک ان کی زندگی تباہ کرسکتی ہے۔ مسلمانوں کو ےہ بھی سوچنا چاہئے کہ برادران وطن کے کام کے لئے ادنی سے اعلی سطح تک کے افسران موجود ہےں لےکن مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے مےں سوچنے کے لئے کوئی نہےں ہے۔ اےسی صورت حال مےں مسلمانوں کا نظر انتخاب انہےں امےدواروں پر جانی چاہئے جن کے دلوں مےں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ ہو۔ جو مسلمانوں کے بارے مےں سوچتے ہوں۔ سارے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے خاص طور پر ان مسلمانوں کی جن مےںعلمائ، صلحائ، مشائخ، دانشور، لےکچرر، پروفےسر، اساتذہ اور مختلف شعہبائے حےات سے وابستہ ہر وہ افراد جو گلی محلے سے لے کربلاک، ضلع، رےاست اور ملک مےں اپنا کچھ بھی اثرو رسوخ رکھتے ہوں ، ان پر فرض عےن ہے کہ وہ اس مےدان مےں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لئے تےار ہوجائےں۔ مےرے کہنے کا مطلب ےہ قطعی نہےں ہے کہ آپ کسی پارٹی کی مخالفت ےا حق مےں خم ٹھوک کر مےدان مےں انتخابات مےں کود پڑےں بلکہ وہ حضرات اس بات کی کوشش کرےں کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسےم نہ ہو۔ کےوں کہ مسلمانوں کے ووٹ تقسےم کرنے کی سازش تےار کی جاچکی ہے، مہرے ، پےادے اور کارندے تےار ہوچکے ہےں جو آپ کو خوشنما خواب دکھاکر آپ کے ووٹ کو بانٹنے کی تگ و دو مےں لگ گئے ہےں۔ اےسے خوبصورت اور مذہبی لباس مےں آر اےس اےس کے نمائندے آپ کے سامنے پےش ہورہے ہےں جو بات تو کرےں گے اتحاد و اتفاق کی، مسلمانوں کی ترقی اور فلاح بہبود کی، مسلمانوںکی ےک لخت حالت بدلنے کی لیکن سچ وہ آپ کی بھلائی نہےں آ پ کے ووٹ کو پارہ پارہ کرکے بھارتےہ جنتا پارٹی کے کام کو آسان بنانے کے لئے مےدان مےں ہےں۔ اس بارملک مےں جس طرح کا سےاسی کھےل بی جے پی بہت ہی خاموشی سے کھےل رہی ہے اس کا احساس عام لوگوں کو تو کےا مےدان مےں سےاست بہت سے آزمودہ کھلاڑےوں کو بھی نہےں ہے۔ وہ صرف نام نہاد کامےابی کے غبارے پر سوار ہےں اور زعم ہے کہ اس کی حماےت کے بغےر کسی پارٹی کی حکومت نہےں بنے گی۔ گزشتہ پارلےمانی انتخابات مےں اعظم کا واقعہ سامنے ہے جہاں بی جے پی آج تک وہاں کامےابی نہےں ملی تھی وہ صرف ووٹوں کی تقسےم کے سہارے اعظم گڑھ کو فتح کرنے مےں کامےاب رہی۔ اسی پارٹی اور اس کے مےڈےا کارندے نے اعظم گڑھ کو ”آتنک گڑھ“ کہہ کر بدنام کےا تھا۔ نئی اور پرانی سےاسی پارٹےوں کی چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو خود طے کرنا ہے کہ انہےں خوف و دہشت ، ذلت، بدنامی اور مجبوری کی زندگی پسند ہے ےا عزت کی۔ اگر عزت کی زندگی پسند ہے تو انہےں اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ اس کا خمےازہ اگلے پانچ سال تک بھگتنا پڑے گا۔ہر پانچ سال کے بعد مسلمانوں کوحساب چکانے کا موقع ملتا ہے اگر ےہ بھی چند کے عوض ذاتی مفاد پرستی کی بھےنٹ چڑھ گےا تو پھر شکاےت کرنے کے لئے بھی ہمارے پاس کچھ نہےں رہے گا۔
ان رےاستوں کے مسلمانوں کو بہار سے سبق حاصل کرنا چاہئے بی جے پی نے بہارمےں نتےش کمار کا نام نہاد سےکولر چہرہ سامنے رکھ کر کس طرح مسلمانوں کی نمائندگی کم کی۔ سےمانچل کا خطہ جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت زےادہ ہے وہاں سے بھی مسلمان جےت نہےں پائے۔ آج ےہ پورا خطہ آر اےس اےس کے نرغے مےںہے۔ بی جے پی اور نتےش کمار نے بہت خوبصورتی سے مسلمانوں کا دروازہ اس طرح بند کےا کہ اس کا داغ بھی ان کے دامن پر نہےں لگا۔مسلمانوں کی نمائندگی بہار مےں آج سب سے کم ہے۔ آج بہار مکمل طور پر فرقہ پرستوں کی چنگل مےں ہے انہی فرقہ پرستوں کی مدد سے بہار کو دہشت گردی کی نئی آماجگاہ قرار دےا جارہا ہے ۔ آج بہار مکمل طور پر آر اےس اےس کے سحر مےں گرفتار ہے مسلم وزےر بھی مسلمانوںپر ہونے والے مظالم پر ہونٹ سی لئے ہےں۔ بہار اقلےتی کمےشن جسے آئےنی درجہ حاصل ہے اسے کوئی مظالم نظر نہےں نظر آتے۔نتےش کمار حکومت نے بہار کو مسلمانوں کے جہنم بنادےا ہے۔ فرقہ پرست طاقت جب بھی جہاں بھی چاہتی ہے مسلمانوں پر حملے کرتی ہے ۔ بہار کا مےڈےا جس مےں وہاں کا اردو مےڈےا بھی شامل ہے پوری طرح نتےش کمار کے زےر اثر ہے اور کوئی بھی بات جو نتےش کمار حکومت کے خلاف ہو لکھی نہےں جاتی ۔ بہار مےں فرقہ پرستی کا وائرس اس طرح پھےل چکا ہے کہ اگلے پچاس تک اس کی صفائی ممکن نہےں ہوسکے گی۔ نتےش کمار کا سےکولرزم صرف دکھاوا ہے۔ لہذاان رےاستوں کے مسلمان ہوش کے نا©خن لےں اور اپنے ووٹوں کو تقسےم ہونے سے بچائےں۔ان رےاستوں کے مسلمان اترپردےش مےں جس طرح متحد ہوکر ووٹ دےا تھا اسی طرح وہ بھی ووٹ ڈالےں اور ہر مسلمان ووٹ ڈالنا اپنے اوپر فرض کرلےں۔ اسی کے ساتھ تمام ذی ہوش مسلمانوں (جن مےں علماءاور مسٹر دونوں شامل ہےں) کی ذمہ داری ہے وہ اپنے چھوٹے موٹے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے مجموعی مفادات کے بارے مےں سوچےں اور ان ہی امےدوار کی حماےت کرےں جو مسلمانوں کے لئے کام کرنے کے لئے تےار ہوں اور اپنی نمائندگی کسی طرح بھی کم نہ ہونے دےں۔ ےاد رکھئے اےک دن کی نادانی آپ کو سےکڑوں سال پےچھے چھوڑدے گی۔ےہ بات رکھنے کے قابل ہے جب برا وقت آتا ہے تو ےہ نہےں دےکھتا کہ کس ٹوپی اونچی ہے کس کی نےچے، کون قبر پرست ہے کون نہےں ہے۔ ان طاقتوں کے سامنے صرف مسلمان ہوتا ہے خواہ ان کا تعلق کسی طبقہ، مسلک، نظرےہ ماڈرن اور الٹراماڈرن مسلمانوں سے ہو سب کو اےک ہی نظر دےکھاجاتا ہے۔ جس طرح گولی تمےز نہےں کرتی اسی طرح ےہ طاقتےں بھی کسی مسلک مےں تمےز نہےں کرتےں۔
ڈی۔۴۶، فلےٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلےو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
abidanwaruni@gmail.com