میں گھر کی سیڑھیوں پر کھڑی ہوتی ہوں، اور میرے دو بچے، ایک دو سال اور دوسرا ایک سال کا، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مجھے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بڑا مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے جبکہ چھوٹا پریشان نظر آتا ہے۔ میں ہاتھ ہلاتی ہوں، مڑتی ہوں، اور تہیہ کر لیتی ہوں کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھوں گی۔
اپنے بچوں کو کسی اور کے ساتھ چھوڑ کر جانا بہت مشکل ہے۔ اس سے بھی زیادہ سوہانِ روح یہ خیال ہے کہ میں نے اپنے بچوں کے لیے اس زندگی کا انتخاب کیا۔ میں نے اپنے بچوں کو اکیلے پالنے کا فیصلہ کیا۔
میری طلاق ایک اچانک لیا گیا جذباتی فیصلہ نہیں تھی۔ میں نے کاغذات پر دستخط کرنے سے پہلے اس پر شدت سے طویل غور و فکر کیا تھا۔
پاکستانیوں کو طلاق ‘نہ’ لینے سے ایک عجیب والہانہ لگاؤ ہے۔ ہاں میں اسے والہانہ ہی کہوں گی۔
یہاں تک کہ وہ پاکستانی جو کئی دہائیوں سے باہر رہ رہے ہیں، وہ بھی اس لفظ سے بے حد گھبراتے اور شرماتے ہیں، جیسے کہ ایک خیر خواہ نے کہا تھا،
“چاہے آپ زندگی میں کچھ بھی پا لیں، چاہے آپ کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہو جائیں، آپ کی کامیابی بے معنی اور آپ ناکام کہلائیں گے اگر آپ کی شادی کامیاب نہیں ہے تو۔”
مگر پھر بھی میں نے طلاق لینے کا فیصلہ کیا۔
بھلے ہی میرا فیصلہ واضح اور اچھی طرح سوچ بچار کے بعد لیا گیا تھا، مگر اس کے بعد بھی مجھے ہر پاکستانی کے سامنے اپنے اقدام کا مکمل جواز پیش کرنا پڑتا ہے۔
سب سے زیادہ پریشان کن تو خواتین کا رویہ ہوتا ہے۔ وہ آپ کو اوپر سے نیچے تک دیکھتی ہیں، اور آپ ان کی آنکھوں سے ہی ان کے ذہن میں مچی ہلچل پڑھ سکتی ہیں:
کیا وہ تم پر تشدد کرتا تھا؟ نہیں۔
تو پھر اس کے علاوہ وہ چاہے کچھ بھی کر رہا تھا، تم بچوں کی خاطر برداشت کیوں نہیں کر سکتی تھی؟
کیا وہ تمہیں طلاق دینا چاہتا تھا؟ نہیں۔
مگر تم نے اسے بچے ہونے کے باوجود چھوڑ دیا؟ ہاں۔ خاموشی، دھچکا، مگر کیوں؟
ایسا لگتا ہے کہ جب ایک عورت طلاق لیتی ہے تو وہ اور اس کے بچے عوامی ملکیت بن جاتے ہیں جن پر ہر کوئی راہ چلتا شخص تبصرہ بازی کر سکتا ہے۔
ان کی بدقسمتی کہ وہ مجھے کچھ کرنے سے جسمانی طور پر نہیں روک سکتے — ہاں اگر پاکستان میں ہوتے تو شاید ایسا بھی کر ڈالتے — مگر وہ زبانی حملوں سے بہرحال نہیں باز آتے۔
سب سے زیادہ جو چیز مجھے پریشان کن لگتی ہے وہ یہ عام تصور کہ طلاق میں نے بخوشی نہیں لی ہوگی۔ آخر بچے ہونے کے بعد کوئی عورت ایسا کر بھی کیوں سکتی ہے؟
اور جب انہیں یقین آجاتا ہے کہ طلاق میں نے خود لی ہے، تو وہ میرے بچوں کو رحم بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی نظروں میں ان بچوں کی ماں جنونی ہے۔
ظاہر ہے کوئی بھی عورت جو کسی مرد کی موجودگی کے ‘سہارے’ کو خود چھوڑنا چاہے، پھر بھلے ہی وہ سہارا کس قدر لایعنی اور صدمہ انگیز کیوں نہ ہو، وہ اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتی۔
ظاہر ہے کہ ایک عورت جو روزانہ پورا وقت کام کرتی ہے، اور جس کے بچے یا ڈے کیئر سینٹر یا نانی کے گھر میں پلیں بڑھیں، ایک ماں ہونے کے قابل نہیں ہے۔ آخر طلاق لینے کے بعد پڑھنے اور کام کرنے کا مقصد کیا ہے؟ آپ کو تو ایک کونے میں منہ چھپا کر بیٹھ جانا چاہیے۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پاکستانیوں میں اب طلاق کے متعلق خیالات تبدیل ہو رہے ہیں۔
یورپ میں رہنے والی پاکستانی برادری میں سوچ کی یہ تبدیلی ابھی بھی آنی باقی ہے۔ میں صرف ایک یا دو ایسی پاکستانی عورتوں سے ملی ہوں جنہوں نے میری طلاق کا سننے پر مجھے کہا کہ “مجھے یقین ہے تم اس کے بغیر بہتر ہو اور تمہیں اس سے اور زیادہ اچھا کوئی مل جائے گا۔” یہ دونوں ہی عورتیں حال ہی میں پاکستان سے یہاں آئی تھیں۔
ایسا لگتا ہے کہ باہر رہنے والے پہلی اور یہاں تک کہ دوسری نسل کے پاکستانی بھی طلاق کو پسند نہیں کرتے۔ وہ اس رومانوی (یا گمراہ کن کہیں؟) خیال کے ساتھ جڑے رہتے ہیں کہ ایک بار شادی کر لینے والی عورت کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
طلاق کے بعد زندگی کیسی ہوتی ہے؟
میں نے پاکستانی ریستورانوں، دکانوں، اور کمیونٹی سینٹرز سے دور رہنا شروع کر دیا ہے۔ لوگوں کو یہ بتانا کہ میں اور میرے سابق شوہر کے درمیان علیحدگی ہوچکی ہے، بہت ‘قابلِ شرم’ ہے، مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مجھے یہ اتنی شرمناک نہیں لگتی تھی جب تک کہ میں نے اس بات پر لوگوں کا ردِ عمل نہیں دیکھ لیا۔
اس بات پر شرم محسوس نہ کرنے والی عورت پاگل ہی ہوسکتی ہے۔ آخر کیسی بے دل لڑکی ہے جو یہ بات بتاتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہو جاتی؟
مگر جب میں پاکستان میں بسنے والوں اور یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے ردِ عمل کا موازنہ کرتی ہوں تو مجھے شدید حیرانی ہوتی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ کراچی کے چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں رہنے والے لوگ مجھے زندگی جینے اور بہتر نظر آنے کے لیے ہمت دلاتے ہیں تاکہ میرے سابق شوہر کو احساس ہو کہ انہوں نے کسے کھویا ہے۔
مگر باہر بسنے والے پاکستانی مجھ سے توقع کرتے ہیں کہ میں بیٹھ جاؤں اور بس روتی رہوں، لمبی دوپہروں میں سب سے صرف یہ بات کروں کہ میری زندگی کس قدر مشکل ہوگئی ہے اور یہ تسلیم کروں کہ مجھے کتنا برا لگتا ہے۔
میں اپنے بچوں کو اپنی طلاق کے بارے میں بتانے کے بارے میں اور انہوں لوگوں کے زبان درازی سے محفوظ رکھنے کے بارے میں بہت سوچتی ہوں۔ لیکن آخر میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ میں انہیں لوگوں کی باتوں سے نہیں بچا سکتی۔
میں صرف اتنا کر سکتی ہوں کہ اپنے بچوں کو ایسا بناؤں جنہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ان کے بارے میں کیا کہتا اور سوچتا ہے۔ ان کی ماں کے برعکس۔c