لاہور،29نومبر‘ہندوپاک کے درمیان امن قائم کرنے کیلئے میڈیا کے کردار پر طویل مباحثے کے دوران دونو ں ملکوں کے سینئر صحافیوں نے یہ محسوس کیا کہ امن کی آشا خطے کے لئے نا گزیر ہے۔یہاں الحمرا میں منعقدہ چوتھی سہ روزہ الحمرا عالمی ادبی و ثقافتی کانفرنس کے آخری روز صدارتی خطاب میں مہمان خصوصی نجم سیٹھی نے کہا کہ پاکستانی اشاعتی گھرانے جنگ اور ہندستانی میڈیا ہاوس ٹائمز آف انڈیا کی طرف سے شروع کردہ امن کی آشا عوامی خواہشات پر مبنی ہے اور سچ بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں بھی بیشتر میڈیا سیاسی جماعتیں اور غیر سیاسی گروہ ہند پاک امن کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ میڈیا یکسو ہوکر امن کے پیغام کو ملاوٹ کئے بغیر دونوں ملکوں کے عوام بالخصوص نوجوانوں تک پہنچائے تاکہ امن کا کارواں آگے بڑھ سکے۔
چیئرمین الحمرا عطاءالحق قاسمی نے میڈیا سے رجوع کر کے کہا کہ “ اب ہم سب کو چاہئے کہ ہم ماضی کی تمام باتوں کو بھلا کر نئے مستقبل کو بنیں اورجنگ کے بارے میں نہ سوچیں نہ اس کی فضا قائم ہونے دیں”۔ ایڈیٹر ٹائمز آف انڈیا کنگ سکھ ناگ نے کہا کہ ہندوستان میں پاکستان کے تعلق سے بہت سےتحفظات ہیں۔ ازالے کے لئے عوامی رابطوں میں مزید وسعت لانی ہوگی تاکہ آپس کی نفرتیں ختم ہوسکیں۔ہندستان میں عوامی سطح پر پاکستان سے دوستی کے معاملے میں خوش آئند ولولہ پایا جاتا ہے اور “میرا خیال ہے کہ میڈیا محبتوں میں اضافہ کر سکتا ہے”۔ روزنامہ جدید خبر ‘نئی دہلی کے ایڈیٹر معصوم مراد آبادی نے الیکٹرانک میڈیا پر بریکنگ نیوز کے چکر میں خبر کی حرمت کو متاثر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مشن سے پروفیشن میں تبدیل ہونے والی صحافت کا ایک نمایاں حلقہ کمیشن پر کام کرنے لگا ہےجو موجب تشویش ہے ۔صحافت کو اس کثافت سے نکالنا ہوگا۔اس طرح ہندو پاک کے درمیان بد گمانی کے بجائے اعتماد اور امن کی فضا بحال کرنے میڈیا واقعی موثر رول ادا کرنے کا متحمل بن جائے گا ۔
جنگ گروپ کے صحافی افتخار احمد نے کہا کہ ہمسائیوں سے اچھے تعلقات رکھنے میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔ قومی ڈائجسٹ کے ایڈیٹر مجیب الرحمٰن شامی نے دشمنی کے لئے روئیے کو مورد الزام ٹھراتے ہوئے کہا کہ کہا کہ“ ہم متعدد لا حاصل جنگیں لڑچکے ہیں،لہذا اب امن کے آپشن کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ پاکستان ٹوڈے‘ کے ایڈیٹر عارف نظامی نے کہا کہ جہاد بہت کرلیا اب امن کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔ جنگ کے ایڈیٹر سہیل وڑائچ نے دعویٰ کیا کہ پینسٹھ سال میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سنسر شپ کی بے جا پابندیوں سےآزاد ہوکر پاکستانی میڈیا اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ سینئر صحافی محمود شام نے کہا کہ عوامی سطح پر طرفین کےواضح دوستانہ جذبات کا سرکاری سطح پر فقدان نہیں ہونا چاہئے۔ جیو نیوز چینل کے سلیم صافی نے کہاکہ پاکستان اور ہندستان دونوں کو اپنی اپنی کوتاہیوں کے ادراک سے کام لینا چاہئے۔“ میں اعتراف کرتا ہوں کہ جنگوں میں پاکستان نے بہت غلطیاں کی ہیں،اگر ہمارا یہی رویہ رہا تو امن قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ہمیں سیاستدانوں کی نہیں بلکہ لیڈروں کی ضرورت ہے۔ اوریا مقبول جان نے کہا پاکستانیوں میڈیا کو چاہیئے کہ وہ عوامی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض کو سرانجام دے۔کالم نگار یاسر پیرزادہ نے کہا امن کی آشا طرفین کے درمیان پائے جانے والے شدید جذبات کو لطیف کرنے میں ہینڈ بریک کا کردار ادا کر رہی ہے۔یہ وہ امن کی روشنی پھیلا رہی ہے جو اس خطے کی ضرورت ہے۔ سجاد میر نے کہا کہ امن کی بات بہت بھلی ہے اگر یہ حقیقی طور پر حقیقت بن کر سامنے آ جائے۔ آفاق خیالی نے کہا ترقی یافتہ ممالک اپنے بڑے مسائل طے کر چکے ہیں جبکہ پاکستان میں ابھی یہ ہی طے نہیں ہو سکا کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولریا روشن خیال ریاست بنانا چاہتے تھے۔