پولیو رضاکاروں کو پشاور کی۹۹ یونینز میں۷لاکھ۵۴ہزار ۳سو۸۳ بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف دیا گیا تھا۔ ان میں سے۱۵ ہزار۶۸۵بچوں کے والدین نے ویکسین پلانے سے یکسر انکار کردیا، جبکہ ۳۶ہزار ۹۹۴ بچوں تک پولیو ٹیموں کی رسائی ممکنہ ہی نہیں ہوسکی ۔پاکستان میں انسداد پولیو کیلئے اٹھائے جانے والے تمام حکومتی اقدامات کے باوجود، آج بھی والدین کی بڑی تعداد بخوشی اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے پر رضامند نہیں۔اسی لئے، جب بھی انسداد پولیو کی مہم شروع کی جاتی ہے یا تو والدین اپنے بچوں کو ویکسین پلانے سے صاف انکار کر دیتے ہیں یا حیلوں بہانوں سے اپ
نے بچوں تک پولیو ٹیم کی رسائی نا ممکن بنادیتے ہیں۔اس بات کا واضح اشارہ پشاور کی۹۹یونین کونسلز میں چلائی جانے والی حالیہ انسداد پولیو مہم سے بھی ملتا ہے ۔محکمہ صحت کے مطابق، پولیو رضا کاروں کو پشاور کی ۹۹ یونینز میں ۷ لاکھ ۵۴ ہزار۳سو ۸۳ بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف دیا گیا تھا، ان میں سے۱۵ ہز ار ۶۸۵ بچوں کے والدین نے ویکسین پلانے سے یکسر انکار کر دیا، جبکہ۳۶ ہزار۹۹۴ بچوں تک پولیو ٹیموں کی رسائی ممکنہ ہی نہیں ہوسکی اور یوں ۵۲ہزار سے زیادہ بچے پولیو ویکسین سے محروم رہ گئے۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پولیو کے انتہائی خطرناک نتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے اتنی بڑی تعداد یقیناً باعث تشویش ہے۔ لیکن، کم علمی یا شاید جانتے بوجھتے والدین اپنے ہی بچوں اور ملک کے مستقبل سے بے پرواہ ہیں حالانکہ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔قبائلی علاقوں میں انسداد پولیو کے کام میں مصروف سول ملٹری کوآرڈی نیشن کمیٹی کی ایک رپورٹ کے حوالے سے روزنامہ ایکسپریس ٹری بیون لکھتا ہے:’رواں سال صرف قبائلی علاقوں میں پولیو کے ۸۵ کیسز سامنے آچکے ہیں۔ ان میں سے باڑہ میں ۱۳، جمرود میں ایک، میرعلی میں گیارہ، میران شاہ میں ۴۸ رزمک میں ۲ وانا اور برمل میں چار، چار اور جانی خیل میں ۲ کیسز سامنے آئے جبکہ کراچی، صوبہ سندھ اور ملک بھر کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو امسال کراچی میں پولیو کے ۱۰، سندھ میں۱۱؍اور ملک بھر میں ۱۱۷؍پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں۔ ‘کراچی کی صورتحال تو اس حد تک خراب ہے کہ یہاں مختلف علاقوں مثلاً گڈاپ ٹاون، گلشن اقبال اور بلدیہ ٹاو?ن کے سیوریج واٹر میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوچکی ہے۔ایک دردناک حقیقت یہ ہے کہ ملک میں پچھلے۲۰سالوں سے پولیو ویکسین یا انسداد پولیو کے قطرے پلائے جانے کے باوجود پولیو وائرس پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے اور ہر سال ان کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ لہذا، صحت کے عالمی اداروں نے پاکستان میں انسداد پولیو کی غرض سے سال۲۰۱۵سے پولیو انجکشن بھی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔دوہری ویکسین: نیا طریقہ عالمی ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پولیو ویکسین پلانے سے پولیو وائرس کمزور حالت میں جسم میں موجود رہتا ہے، جبکہ پولیو انجکشن خون میں شامل ہو کر کام کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر دوہری ویکسین استعمال کی جائیں تو اس مرض سے جلد چھٹکارہ بھی مل سکتا ہے۔دوہری ویکسین کا تجربہ بھارت کو پولیو فری کنٹری بنانے میں کارگر ثابت ہوچکا ہے، جبکہ نائیجیریا میں بھی یہی دوہری ویکسین استعمال کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر مظہر خمیسانی کا کہنا ہے کہ پولیو انجکشن متعارف کرانے کی تجویز سابق وزیر صحت سندھ ڈاکٹر صغیراحمد نے دی تھی جس پر سال۲۰۱۵ سے عمل شروع ہونے جارہا ہے۔پہلے مرحلے میں انجکشن ’ہائی رسک ایریا‘ میں لگائے جائیں گے، جبکہ قطرے پلانے کا کام بھی جاری رہے گا۔