اسلام آباد: پاکستان میں رواں برس 300 افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کل مکمل ہونے کا امکان ہے۔مختلف بیماریوں کے باعث معذور عبد الباسط کو کل پھانسی دی جائے گی، ان پر 6 سال قبل 2009 میں ایک شخص کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔
عبدالباسط کی پھانسی اس سے قبل بھی متعدد بار مختلف انسانی حقوق کی تنظمیوں کے احتجاج کے باعث ملتوی کی جا چکی ہے، پھانسی ملتوی ہونے کی وجہ ان کا بیماری کے باعث وہیل چیئر کا استعمال ہے۔
43 سالہ عبدالباسط کو 2009 میں ایک قتل کیس میں سزائے موت سنائی گئی تھی، تاہم وہ اپنی بے گناہی پر اصرار کرتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق عبدالباسط فیصل آباد سینٹرل جیل میں غیر انسانی حالات کی وجہ سے 2010 میں معذور ہو گئے تھے.
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ ٹی بی کے تشخیص کے باوجود عبدالباسط کو مناسب طبی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی شدید متاثرہوئی۔
پاکستان کی جانب سے سزائے موت پر عمل درآمد کو انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جاری اعلامیے کے مطابق اب تک پاکستان میں 299 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان نے گزشتہ برس 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پھانسی پر عائد غیر اعلانیہ پابندی ختم کی تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق صرف اکتوبر 2015 میں 45 افراد کو پھانسی دی گئی تھی جو کہ کسی بھی مہینے میں پھانسیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
واضح رہے کہ اس حوالے سے سرکاری سطح پر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیاء کے ریسرچ ڈائریکٹر ڈیوڈ گریفتس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جس تیزی سے پھانسیاں دی جا رہی ہیں یہ انسانی حقوق کی توہین ہے۔
ڈیوڈ گریفتس نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر سزائے موت کے خلاف رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت عبد الباسط کی پھانسی موخر بھی کر دے تو بھی پاکستان میں یومیہ پھانسیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیاء کے ریسرچ ڈائریکٹر کا دعویٰ تھا کہ ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ پاکستان میں مسلسل پھانسیوں سے انسداد دہشت گردی میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 6 سال تک پھانسیوں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی جبکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پابندی پر خاتمے کے بعد شروع میں دہشت گردی میں ملوث افراد کو پھانسیاں دی گئی تھی البتہ مارچ 2015 سے ان افراد کی سزائے موت پر بھی عمل درآمد کیا جانے لگا جو کہ دیگر جرائم میں ملوث تھے۔