(انیس امروہوی)
ہندی فلم انڈسٹری کا ایک درخشاں نام مرحوم پرتھوی راج کپور کا ہے جنہوں نے نہ صرف خود اپنی زندگی فلموں کےلئے وقف کر دی بلکہ ایک پورا فلمی خاندان ہندوستانی فلموں کو عطا کیا۔ آج ان کے بیٹے اور پوتے تک اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ راج کپور ہیروشپ میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ایک کامیاب ہدایت کار اور فلمساز بنے ۔ شمی کپور کریکٹر آرٹسٹ ہوگئے ، ششی کپور بھی ایک بہترین فلمساز کے طور پر اپنے آپ کو منواچکے ہیں اس کے ساتھ ہی پرتھوی راج کپور کے پوتوں کی بھی ایک کافی بڑی جماعت ہے جو پورے طور پر فلموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں رندھیر کپور، رشی کپور، راجیو کپور اور کنال کپور کافی اہم ہیں۔ ان کی دو پر پوتیوں(رندھیر کپور
کی بیٹیوں) کرشمہ کپور اور کرینہ کپور نے بھی خاصی کامیابی حاصل کی ہے۔
پرتھوی راج کا جنم ۳نومبر ۱۹۰۶ء کو پشاور کے ایک متمول کپور خاندان میں پولیس انسپکٹر بشیشر ناتھ کپور کی پہلی بیوی کی اکلوتی اولاد کے طور پر ہوا تھا ان کی ابتدائی تعلیم سمندری اور لائل پور میں ہوئی اور بعد میں پشاور کے کالج سے گریجویشن کیا۔ ان دنوں وہ ایک وجیہہ ، خوبصورت شکل وصورت کے ۶فٹ سے کچھ نکلتے ہوئے گبرو نوجوان تھے۔ ۱۰دسمبر ۱۹۲۳ء کو ان کی شادی رمادیوی سے ہوئی اور اس کے بعد وہ قانون کی پڑھائی کےلئے لاہور چلے گئے۔ لاہور گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل میں ایک دن پرتھوی راج کپور کو اپنی بیوی رما دیوی کا ہندی میں لکھا ہوا خط ملا لیکن وہ ہندی نہیں جانتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے روم پارٹنر پورن سنگھ سے ایک دن میں کام چلاؤ ہندی پڑھان سیکھا اور اپنی بیوی کا خط خود پڑھ کر اس کا جواب بھی ہندی میں ہی لکھ کر بھیجا۔
۱۹۲۹ء کے شروعاتی مہینوں میں ہی وہ کالج کے لڑکوں اور مغرور قسم کے پروفیسروں سے اکتا گئے اور ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ وہ اداکاری کے فن میں ہی زیادہ ذہنی سکون حاصل کر سکیںگے۔ دل میں یہ خیال آتے ہی انہوں نے کالج اور پڑھائی چھوڑ دی اور بیوی اور بڑے بیٹے کو پشاور میں ہی الوداع کہہ کر بمبئی آگئے۔ گرگاؤں میں آردیشر ایرانی کی ’امپیریل فلم کمپنی‘ تھی وہاں پرتھوی راج کو ایکسٹرا اداکار کے طور پر پہلی بار فلم ’چیلنج‘ میں ایک کردار ادا کرنے کا موقع ملا ان دنوں وہ فارس روڈ جیسے بدنام علاقے کی ایک گلی کی بلڈنگ میں کرائے کا کمرہ لے کر رہنے لگے۔
پرتھوی راج کو جلد ہی ان کی پُر وقار شخصیت کی وجہ سے آردیشر ایرانی نے اپنی اگلی فلم’سنیما گرل‘ میں ہیرو بنا دیا اور ایکسٹرا کا لیبل ان کے نام سے ہٹ گیا اس فلم میں ایر ملین ان کی ہیروئن تھیں ہدایت کار بی بی مشرا کی فلم ’طوفان‘ میں بھی اسی جوڑی کو دہرایا گیا اس کے بعد مشرا جی کی فلم ’دروپدی‘ میں پرتھوی راج نے ارجن کا کردار ادا کیا۔ فلم’وجے کمار اور ’بینڈ فار دی تھرون‘ میں وہ جلو بائی کے ساتھ ہیرو بنے اور ’نورانی موتی لاہور کی بیٹی ‘ اور فلم ’دھرتی ماتا‘ میں ان کی ہیروئن زہرہ بنیں۔ اس کے علاوہ ’نمک حرام کون‘؟اور ’پریم کا داد‘ پرتھوی راج کی کچھ ایسی خاموش فلمیں تھیں جو ۱۹۳۱ء تک نمائش کےلئے پیش کی جا چکی تھیں۔
۱۴مارچ ۱۹۳۱ کو ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایک زبردست انقلاب آیا اور اس دن ہندوستان کی پہلی بولتی فلم ’عالم آراء‘نمائش کے لئے پیش کی گئی۔ فلمساز ہدایت کار آردیشر ایرانی کی اس فلم میں پرتھوی راج کپور نے عالم آرا (زبیدہ) کے باپ کا کردار ادا کیا تھا جو بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار بھی تھا فلم کے اس ناچتے گاتے اور بولتے ہوہئے کرشمے نے لوگوں پر جادو جیسا اثر کیا۔ حالانکہ اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اخبار کے صحافی نے پرتھوی راج کی اداکاری اور خاص طور پر ان کی آواز کی سخت الفاظ میں تنقیدکی اور لکھا کہ ان کی آواز فلموں کےلئے موزوں نہیں ہے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد میں متکلم فلموں کےلئے ان کی یہی آواز ان کی ااور فلم کی کامیابی کی ضمانت بن گئی۔یہ وہی زمانہ تھا جب پرتھوی راج کا تھیٹر کی طرف رجحان بڑھنے لگا تھا بمبئی کے اوپرا ہاؤس میں انہوں نے ’گرینڈ انڈین نیشنل تھیٹر‘ نام کے ایک گروپ کے ساتھ کام شروع کر دیا مگر جلد ہی ۴۵۰ روپئے ماہانہ تنخواہ پر کلکتہ کے ’نیو تھیٹرس‘ کے ساتھ کام کرنے لگے۔ بمبئی میں انہوں نے ۱۹۳۲ء میں امپیریل فلم کمپنی کی ’دغا باز عاشق‘ میں زہرہ کے ساتھ کام کیا تھا اور ۱۹۳۳ سے لے کر ۱۹۳۹ تک پرتھوی راج نے کلکتہ کے نیو تھیٹرس کی تقریباً ۱۰ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اس کے علاوہ تقریباً ۶فلمیں نیو تھیٹرس سے باہر کی بھی کیں کلکتہ جانے سے پہلے پرتھوی راج کپور اپنی شدید خواہش کے مطابق رنجیت اسٹوڈیو کی فلموں میں کام کرنے کےلئے اسٹوڈیو کے مالک چندولال شاہ سے ملے مگر چندولال شاہ نے ان کے ڈیل ڈول کو دیکھتے ہوئے انہیں اسٹنٹ فلموں میں کام کرنے کا مشورہ دے کر ٹال دیا تب پرتھوی راج یہ کہتے ہوئے ان کے دفتر سے باہر آگئے کہ آپ ہندوستان کے ایک بہت بڑے اداکار کو ریجکٹ کر رہے ہیں۔۱۹۳۹ءمیں پرتھوی راج کپور بمبئی آگئے اور ایک ہزار روپئے ماہوار پر سیٹھ چندولال شاہ کے رنجیت مودی ٹون سے وابستہ ہو گئے حالنکہ انہوں نے اب تک کافی شہرت عزت اور پیسہ حاصل کر لیا تھا مگر وہ ہمیشہ ایک سادہ سی زندگی گزارنے کے قائل رہے۔ماٹونگا کے ان کے فلیٹ میں ہمیشہ مہمان بھرے رہتے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت جب جگہ جگہ ہندو مسلم فساد ہو رہے تھے تو پنجاب سے ان کے کئی رشتہ دار خاندان بمبئی آکر ان کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔
رنجیت مودی ٹون کے ساتھ پرتھوی راج کی سب سے پہلی فلم ۱۹۳۹ء میں ’ادھوری کہانی‘ کی نمائش ہوئی جس کی ہیروئن درگا کھوٹے تھیں اس کے بعد انہوں نے رنجیت مودی ٹون کی ’آج کا ہندوستان‘ اور ’پاگل‘، ’گوری‘ اور ’وش کنیا‘ میں کام کیا جن میں ستارہ دیوی ، مادھوری، شمیم اور سادھنا بوس ان کی ہیروئن تھیں۔