پنجاب کے دیہی علاقوں میں بہتر کمائی کے لیے نوجوانوں میں بیرون ملک جانے کا رجحان عام ہے جس سے علاقے ویران پڑے ہیں
بھارتی پنجاب کے پلاہی گاؤں کی خاموش اور ویران گلیاں ایک درد بھری داستان بیان کرتی ہیں۔
یہاں چاروں طرف بڑی بڑی عالی شان عمارتیں ہیں، لیکن دروازوں پر تالے پڑے ہیں۔ جگہ جگہ مکڑیوں کے جالے اور تتیوں کے چھتّے اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ کوٹھیاں مہینوں سے رونقوں کی بحالی کی منتظر ہیں۔ ان مکانوں کو مکینوں کا انتظار ہے۔
کہاں گئے سب لوگ؟
پلاہی گاؤں دریائے ستلج اور بیاس کے درمیان جالندھر کے قریب واقع ہے۔ پنجاب کا یہ انتہائی زرخیز علاقہ اپنی لہلہاتی فصلوں سے زیادہ اپنے نوجوانوں کی ہجرت کے لیے مشہور ہے، جو ان بیش قیمت زمینوں کو چھوڑ کر خوشحالی کی تلاش میں مغربی دنیا کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں چائے کے ہوٹلوں سے زیادہ ’ویسٹرن یونین منی ٹرانسفر‘ کے بورڈ نظر آتے ہیں۔ جگہ جگہ ’کنسلٹنٹس‘ نوجوانوں کو امریکہ اور کینیڈا پہنچانے کا خواب دکھاتے ہیں۔ اس علاقے میں مشکل سے ہی آپ کو کوئی ایسا گھر ملے گا جس کا کوئی فرد یا پورا ہی خاندان امریکہ یا کینیڈا میں آباد نہ ہو۔
تین نسلوں کی کہانی
یہ تین نسلوں کی کہانی ہے۔ ایک وہ جو بیرون ملک جانے کی تیاری میں ہیں، ایک وہ جو جا چکے ہیں اور ایک وہ جنھیں ان کے لوٹنے کا انتظار ہے۔
زندگی کی دوڑ میں پلاہی گاؤں کے ان نوجوانوں نے اپنا سفر بس شروع ہی کیا ہے، ان کے راستے الگ ہو سکتے ہیں لیکن منزل ایک ہی ہے
پلاہی کے جگت سنگھ کالج پر سورج طلوع ہی ہو رہا ہے لیکن ابھی سے پسینے میں شرابور پچیس تیس نوجوان فٹبال کی پریکٹس میں مصروف ہیں۔
زندگی کی دوڑ میں پلاہی گاؤں کے ان نوجوانوں نے اپنا سفر بس شروع ہی کیا ہے۔ ان کے راستے تو الگ ہو سکتے ہیں، لیکن منزل ایک ہے۔ ان میں شامل جتندر سنگھ 12 ویں کلاس کے طالب علم ہیں، انھیں شدت سے ’پلس ٹو‘ کے امتحان کا انتظار ہے۔
’امتحان کے فوراً بعد میں کینیڈا جاؤں گا، وہاں پڑھائی کروں گا۔۔۔ یہاں کچھ نہیں ہے، بی اے کرنے کے بعد بھی مزدوری کرنا پڑتی ہے، بیرون ملک محنت کر کے میں خوب پیسہ کمانا چاہتا ہوں، بڑی کوٹھی بناؤں گا اور اپنے والدین کو بھی وہیں بلا لوں گا۔‘
یہاں موجود تقریباً ہر نوجوان کا یہی خواب ہے۔ اور اسے پورا کرنے کے لیے وہ اسی کالج کے ٹیکنیکل کورسز کا رخ کرتے ہیں۔
شری رام جیسوال موٹر وائنڈنگ کا کام سیکھ رہے ہیں۔ وہ قانونی راستے سے کینیڈا جانا چاہتے ہیں جہاں ’ان کے استاد پہلے سے کام کر رہے ہیں۔‘
شری رام کہتے ہیں کہ انھوں نے اس کورس میں داخلہ اپنے استاد کے کہنے پر ہی لیا تھا۔ ’ کورس مکمل ہو جائے گا تو وہ میرا ویزا بھیج دیں گے۔۔۔باہر محنت کم ہے اور پیسہ زیادہ اس لیے ہم سب باہر جا کر ہی اپنی زندگی سنوارنا چاہتے ہیں۔‘
گاؤں کے زیادہ تر لوگ تو باہر ہیں اور باہر کے لوگ یہاں آ کر بس گئے ہیں جس سے گاؤں کی روایتی زندگی متاثر ہو گئی ہے
لیکن اس کالج کے پرنسپل رویندر بھارگو کو معلوم ہے کہ سب کے سپنے پورے نہیں ہوں گے۔ کچھ کے ویزے لگیں گے، کچھ لاکھوں روپے دے کر ایجنٹوں کے چکر میں گھر جائیں گے اور باقی یہیں رہ کر مایوسی کا شکار ہوتے رہیں گے۔
وہ کہتے ہیں ’یہاں داخلہ لینے سے پہلے طلبہ سب سے پہلا سوال یہی پوچھتے ہیں کہ یہ سرٹیفیکیٹ امریکہ اور کینیڈا کے سفارت خانوں میں تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ بیرون ملک آباد اپنے رشتے داروں کی چمک دمک دیکھ کر ان نوجوانوں کا بھی دل کرتا ہے کہ یہ بھی وہیں جا کر کام کریں۔‘
پلاہی ایک انتہائی ترقی یافتہ گاؤں ہے، پکی صاف ستھری سڑکیں، زیر زمین گٹر، ہر وقت بجلی اور پانی کی فراہمی۔ لیکن یہاں گاؤں کی روایتی زندگی ہجرت کی نذر ہو گئی ہے۔ نہ شام کو چوپال پر لوگ جمع ہوتے ہیں، نہ دن میں گلیوں میں کوئی نظر آتا ہے۔
زیادہ تر گھر تو بند پڑے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے اپنی کوٹھیوں کی دیکھ بھال کے لیے کچھ حصے کرائے پر دے دیے ہیں۔ منوہر سنگھ نے اپنی زندگی اسی گاؤں میں گزاری ہے۔ وہ کہتے ہیں ’گاؤں کے زیادہ تر لوگ تو باہر ہیں، باہر کے لوگ یہاں آ کر بس گئے ہیں، اس سے گاؤں کی روایتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔۔۔۔جو نسل جا چکی ہے، کبھی سال دو سال میں چند ہفتوں کے لیے اپنے گاؤں لوٹتی ہے۔‘
ان کی واپسی کا انتظار کرنے والوں میں گیانی مینگا سنگھ بھی شامل ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں ہیں، ان کا بیٹا ان کی مرضی کے خلاف اٹلی چلا گیا تھا: ’وہاں ویزے میں کچھ مسئلہ ہوا اس لیے آج کل ناروے میں ہے۔‘
گاؤں کے بچے تو باہر بیٹھے ہی، یہ بزرگ بڑا مشکل وقت گزار رہے ہیں، ان کو یاد کر کےوہ افسردہ ہوتے ہیں اور عمر کے اس آخری حصے میں انھیں اپنے بچوں سے جو سہارا ملنا چاہیے تھا وہ نہیں مل رہا
جولوگ باہر جاکر قانونی طور پر آباد ہوگئے ہیں، وہ اپنے بزرگوں کو بھی ساتھ لے گئے، لیکن سب نہیں۔
مینگا سنگھ اور گاؤں کے بہت سے دوسرے بزرگ اسی کشتی میں سوار ہیں۔ ویسٹرن یونین کے ذریعے پیسے تو وقت پر پہنچتے رہتے ہیں لیکن ان کی تنہائی ان کی آنکھوں سے جھلکتی ہے۔ ’بچے تو باہر بیٹھے ہیں، یہ بزرگ بڑا مشکل وقت گزار رہے ہیں، ان کو یاد کر کے وہ اور افسردہ ہوتے ہیں، عمر کے اس آخری حصے میں انھیں اپنے بچوں سے جو سہارا ملنا چاہیے تھا وہ نہیں مل رہا۔‘
وہ کہتے ہیں ’گئے کمانے کے لیے تھے لیکن سب گنوا دیا، مذہب، تہذیب، سب سے خالی ہو کر بیٹھ گئے، اس سے پہلے ہمارے پاس کچے مکان تھے، بہت زیادہ سہولتیں نہیں تھیں، لیکن ہم خوش تھے کیونکہ ہمارے بچے ہمارے ساتھ تھے اور ہم سکھ دکھ میں ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔‘
یہی پنجاب کے سینکڑوں دوسرے دیہات کی بھی کہانی ہے، بہتر مستقبل کی تلاش میں ہجرت کا سلسلہ بھی جاری ہے، اور انتظار کا بھی۔