امریکی خلائی ادارے ناسا کے خلائی جہاز نیو ہورائزن سے لی جانے والی تازہ تصاویر میں پلوٹو کی زیریں سطح سے لپٹی ہوئی دھند دیکھی جا سکتی ہے۔
ان تصاویر میں بونے سیارے پر پھیلی سخت اور غیر ہموار پہاڑیوں اور وادیوں کا دلفریب منظر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔خلائی جہاز نیو ہورائزن نے رواں سال 14 جولائی کو پلوٹو سے محض 12,500 کلومیٹر کی دوری سے گزرتے ہوئے اس سیارے کا مشاہدہ کر کے وسیع پیمانے پر معلومات جمع کی تھیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دھند سے پلوٹو پر زمین جیسا ہی تبخیری عمل ہونے کے شواہد ملتے ہیں اگرچہ کہ وہاں کی برف زمین سے بالکل مختلف ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں خلائی جہازنے معلومات بھیجنا شروع کی تھیں۔ معلومات بھیجنے کا یہ سلسلہ سال بھر جاری رہے گا۔ خلائی جہاز سے بھیجی جانے والی معلومات کے باعث سائنسدانوں کو دوبارہ اس کی مہین فضا کا تجزیہ کرنے اور دنیا کے سب سے حیرت انگیز جغرافیائی مطالعے کا موقع ملے گا۔خلائی جہاز نے پلوٹو کے چاند کے ترچھے منظر کی تصویر 13 ستمبر کو زمین پر بھیجی تھی۔ اس تصویر میں عقب سے سورج کی ڈرامائی انداز میں پڑنے والی روشنی کی مدد سے اس سیارے کی تنوع ساخت اور اس کی سطح سے کم از کم 100 کلومیٹر اونچائی پر اس کے کرہ پر پھیلی درجن بھر سے زائد دھند کی تہوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔خلائی جہاز سے بھیجی جانے والی معلومات کے باعث سائنسدانوں کو دنیا کے سب سے حیرت انگیز جغرافیائی مطالعے کا موقع ملے گا خلائی مشن کے سربراہ سائنسدان، پروفیسر ایلن سٹیرن کہتے ہیں ’اس تصویر کے دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ واقعی وہاں موجود ہوں، پلوٹو پر، اور وہاں کے منظر کا خود جائزہ لے رہے ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ تصویر ایک اہم سائنسی پیش رفت بھی ہے۔ اس تصویر میں پلوٹو کا ماحول، پہاڑیاں، برفیلی چٹانیں اور وادیاں بہت وضاحت سے دیکھی جا سکتی ہیں۔‘نیو ہورائزن سے بھیجی جانے والی تصویر میں پلوٹو پر قریبی پہاڑیوں کے سائے اور کہر کی طرح زیریں سطح پر پھیلی دھند کی تہوں پر اس کی تاریک سطح کے عقب سے پھوٹتی سورج کی روشنی کا امتزاج نظر آرہا ہے۔
اس خلائی مشن کے سائنسدان اور ایریزونا کی لوول آبزرویٹری کے وِل گرنڈی کہتے ہیں ’خوصورت نظارہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ زیریں سطح پر پھیلی یہ دھند کی تہیں اس بات کا اشارہ بھی دیتی ہیں کہ پلوٹو پر بھی زمین کی طرح باقاعدہ موسم تبدیل ہوتے ہیں۔‘دیگر مشاہدوں کے ساتھ اس تصویرسے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ وہاں پر زمین جیسا ہی عملِ تبخیر جاری ہے جس میں منجمد نائٹروجن اور مختلف نوعیت کی نرم برف شامل ہیں۔شارلٹ کی ورجینیا یونی ور سٹی سے تعلق رکھنے والے ٹیم کے ایک رکن ایلن ہاوورڈ کہتے ہیں ’مدھم سورج کی روشنی میں کار فرما اس نظام کا تقابل زمین پر موجود برفیلی چٹانوں میں جاری تبخیری عمل سے کیا جا سکتا ہے۔ جہاں سمندر کا بھاپ بن کر اڑنے والا پانی برف باری کی شکل میں دوبارہ سمندرپر بہتے ہوئی برفانی چٹانوں کا حصہ بن جاتا ہے۔‘
گذشتہ ہفتے ناسا کی جانب سے جاری کی جانی والی تصاویر میں تاریک ناہموار چوٹیوں کا سلسلہ دیکھا جا سکتا ہے پروفیسر سٹیرن کہتے ہیں ’حیرت انگیز طورپر پلوٹو اس معاملے میں بالکل زمین کی طرح ہے اور اس بات کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔‘
گذشتہ ہفتے ناسا کی جانب سے جاری کی جانی والی تصاویر میں تاریک ناہموار چوٹیوں کا سلسلہ دیکھا جا سکتا ہے جوتیز ہوا سے بن جانے والے ٹیلوں کی طرح لگتا ہے۔‘نیو ہورائزن کا اگلا مشن ہمارے نظام شمسی میں سیاروں سے تھوڑی دوری پر موجود ایک اور برفیلا نظام ’کیپر بیلٹ‘ کا تجزیہ کرنا ہے۔امریکی خلائی ایجنسی اس خلائی مشن کا دورانیہ آگے بڑھانے اور دمدار ستارہ ’2014 MU69‘ کے نزدیک سے گزرنے کا باقاعدہ اعلان کرنے سے قبل اس منصوبے کا جائزہ لے گی۔