ہمارے یہاں مسلمانوں میں یہ بات مشہور ہے کہ پولس پکّی شیوسینک اور فرقہ پرست ہے۔حقیقت میں اس کے واضح اشارات برسہابرس سے ملتے آئے ہیں۔۹۲۔۱۹۹۳؍کے فسادات میں ہم نے مہاراشٹرپولس کامسلمانوں کیساتھ جانبدارانہ رویہ دیکھاہے مگراسی کے ساتھ ساتھ متعدداورموقعوں پرآج تک، بال ٹھاکرے کی شیوسینااورراج ٹھاکرے کی نونرمان سیناکے ساتھ بھی نرمی برتتے آئی ہے۔شیوسینا،نونرمان سیناجب بھی کوئی احتجاجی تحریک کرتی ہیں۔کس قدرامن وامان،نظم وضبط کے مسائل پیداہوتے ہیں۔انہوں نے باہری لوگوں کے نام پرہندی بھاشک،بہاری اوریوپی والوں کے ساتھ کیانہیں کیا۔پولس چاہتی توان پرقابوپایاجاسکتاتھا۔
ہرچنداکادُکاپولس والوں کوتعصب اورجانبداری سے مستثنیٰ قراردیاجاسکتاہے۔کوئی مسلمان خاص طورپرداڑھی والاہوتواس کے ساتھ اہانت آمیزسلوک پولس کرتی ہے۔مہاراشٹراقلیتی کمیشن کے سربراہ ایک مسلمان مناف حکیم ہیں۔جوداڑھی بھی رکھتے ہیں۔واضح طورپرسرکاری گاڑی میں جب وہ سوارتھے،ٹریفک پولس نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی،مذہبی دل آزادری کرنے میں اس پولس افسرکے خلاف پہلے بھی شکایت درج رہی ہے۔آج تک اس پولس افسرکے خلاف کیاکاروائی ہوئی۔جب کابینی درجہ رکھنے والے مہاراشٹراقلیتی کمیشن کے چیئرمین کے ساتھ پولس بدتمیزی کرے،چیرمین اس کی شکایت کرے پھربھی خاطرخواہ کوئی کاروائی نہ ہو۔عجیب سی بات ہے۔ایک اونچے درجہ کے وزیرکے برابرمسلم شخص کے ساتھ یہ سلوک پولس کاہے،توعام مسلمانوں کیساتھ کیاکچھ نہ ہورہاہوگا۔مہاراشٹرہی نہیں پورے ملک میں کتنے ہی مسلمان جن پردہشت گردی کے سنگین الزامات ہیں۔یہ الزامات پولس نے لگائے ہیں۔کتنے ہی مسلمان اعلیٰ عدالتوں سے باعزت رہاہورہے ہیں۔پورے ملک میں مسلمانوں کی تعداد۲۰؍کروڑ ہے۔پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ پولس کارویہ انتہائی متصبانہ ہے۔وہ ہم کھلے طورپردیکھ رہے ہیں۔دہشت گردی ایک خطرناک فعل ہے،اس کی روک تھام میں پولس کو انتہائی غیرجانبدارہوکرفرائض کوانجام دیناہے اگریہ نہ ہوسکاتوملک سے بڑھتی دہشت گردی ختم نہ ہوگی۔یوں مسجدوں،مندروں ،عبادت گاہوں،بھرے بازاروں میں معصوموں کاخون ہوگا۔اصلی قاتلوں تک پولس کوپہونچناضروری ہے۔
آخرملک کوپولس کی ضرورت ہے۔پولس کاغیرجانبدارنہ رویہ،متعصب اقدامات باعث ملامت ہیں۔صرف ملامت کرکے رہ نہیں سکتے۔پولس اسٹیشنوں میں سی سی کیمرے ہوناچاہئے،تاکہ واضح طورپرپتہ چلے کہ پولس،پولس اسٹیشنوں میں آنے والوں کے ساتھ کیاسلوک کرتی ہے۔نیزجن پولس افسروں کی نکمی غیرجانبدارانہ کاروائی کی بناء پرمعصوموں کوبرسہابرس کے بعدجیل کی صعوبتوں سے،عدالتوں میں باعزت رہائی ملی۔ایسے نکمے جانبدارافسروں کے خلاف کاروائی انتہائی ضروری ہے۔ورنہ جیلوں میں بے قصوروں سے جگہ بھرتی جائے گی۔
پورے ملک ہندوستان میں سرکارکی پولس ،سیکوریٹی ایجنسی،حفاظتی دستوں،سی آرپی وغیرہ کاسلوک ملک کے مسلمانوں کے ساتھ انتہائی سوتیلاہے۔یہ آج کل سے نہیں بلکہ برسہابرس سے جاری ہے۔ملک میں متعددفرقہ وارانہ فسادات کے بعدریاستی حکومتوں نے فسادات کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی سربراہی میں کمیشن بٹھائے۔۱۹۹۲کے ممبئی کے فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب جاننے کیلئے سری کرشناکمیشن بٹھایا۔سری کرشناہائیکورٹ کے جج تھے۔اسی طرح اس اس سے پہلے مہاراشٹرحکومت نے برسہابرس قبل،جلگاؤں اوربھیونڈی کے فرقہ وارانہ فسادات کی جانچ کیلئے جج مادن کی سربراہی میں ایک کمیشن بٹھایاجوماڈن کمیشن کے نام سے مشہورہوا۔سر کرشناکمیشن نے انتہائی واضح طورپرفسادات میں پولس کے فسادات میں ملواث ہونے کاذکر کیا،کتنے ہی کمیشن جوفسادات کے بعدصوبائی سرکارنے فسادات کے اسباب کی تحقیقات کیلئے مقررکئے تھے۔ان کمیشنوں نے فسادات میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب،شرپسندہندوفرقہ پرست پارٹیوں اوران کے عناصرکے ساتھ پولس کی یاری دوستی کوظاہرکیا۔چندسالوں پہلے یوپی کے ملیانہ میں انتہائی فرقہ وارانہ فسادہو۔پولس نے مسلم نوجوانوں کوایک ٹرک میں بھرااوردریاکنارے لے جاکر،ان سب کوگولی مارکرختم کردیا۔آخران پولس والوں کے خلاف آج تک کیاکاروائی ہوئی۔ہمارے یہاں ممبئی مہاراشٹرمیں۱۹۹۲؍کے فرقہ وارانہ فسادات میں پولس کمشنرتیاگی نے چونابھٹی مسجدمحمدعلی روڈممبئی میں اوربلال مسجدقدوائی نگرمسجدممبئی میں کاپسے نام کے پولس افسرنے کئی بے قصورمسلم نمازیوں اورمدرسہ کے طلباء کوگولیوں سے بھون دیا۔سری کرشناکمیشن میں اس بات کاذکربھی ہے۔مہاراشٹرکی کانگریس سربراہی والی حکومت نے اپنے انتخابی مینی فیسٹومیں سری کرشناکمیشن کی سفارشات پرعمل کرنے کاوعدہ کیا۔آج تک وہ وفانہیں ہوا۔پولس والوں پرکاروائی تودورکی بات ہے،خاطی پولس والوں کوترقی بھی دی گئیں۔فرقہ وارانہ فسادات کے بعدحکومت ہی کے قائم کئے ہوئے تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹیں کھل کرواضح طورپرہندو فرقہ پرست جماعتوںاور پولس کامسلمانوں کیساتھ کتنابے رحمانہ،جبرواستبدادسے بھراہواظاہر کرتی ہیں۔پھرافسوس ناک پہلوحکومتوں کااسے سردخانوں میں ڈال دیناہے۔
اس طرح حکومتوں کافرقہ وارانہ فسادات میں خاطی پولس افسران کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونے پران میں تعصب بڑھے گایاکم ہوگا؟ہندو فرقہپرست جماعتیں بے لگام ہوں گی۔محکمہ پولس میں سدھارضروری ہے۔یہاں گذشتہ چندسالوں میںمہاراشٹر میںگلاب راؤپول،ستیش ساہنی جیسے اعلیٰ پولس افسرآئے۔جنہوں نے پولس والوں میں اصلاحات کی کوشش کیں۔پولس اورعوام کے درمیان رشتوں کواچھابنائے رکھنے کی کوشش کیں۔’’محلہ کمیٹیاں‘‘بنائیں۔ابتداء میں ان کمیٹیوں نے نمایاں سماجی کارگزاری دکھلائیں،افسوس ناک پہلوہے کہ آگے چل کرمحلہ کمیٹیوں میں ایسے افرادآگئے جن کے کردارمشکوک رہے۔یہ’ خبری‘ کہلائے جاتے تھے۔بدعنوان افسران کے ساتھ لے دے کرعوام کے معاملات حل کرتے تھے۔ممبئی کے مسلمانوں میں محلہ کمیٹیوں کے ممبران سے بے انتہانفرت بڑھی۔اس کی وجہ ممبران کاسماجیات کے نام پردھندہ اورتجارت کرناتھا۔
ویسے تومسلمان ہی کیا،عام انسان کوبھی پولس سے بے حدشکایتیں ہیں۔اس کاازالہ ضروری ہے۔مسلمانوں کوپولس سے برادران وطن کے مقابلہ میں زیادہ شکایتیں ہیں۔تعصب کی بنیادپرجوستم پولس مسلمانوں کیساتھ کررہی ہے اس کی ایک لمبی داستان ہے۔سمندراگرسیاہی بن جائے تب بھی داستان غم پوری نہ ہو۔پولس کی درندگی روکنے کاایک ہی علاج ہے وہ بربریت چاہے کسی بھی شہری کے خلاف ہو،چاہے وہ کسی بھی مذہب کاہو۔یہاں اپنے تجربہ کی بنیادپرایک عجیب سامعاملہ اکثروبیشتردیکھتاآیاہوں۔منسٹریااعلیٰ پولس افسران تک جب پولس کے انتہائی سنگین معاملہ کی شکایات کی جاتی ہے تووزراء اعلیٰ پولس افسران کے خلاف تحقیقات نہیںکرتے ہیں۔سیاست دانوں اور پولس کا چولی دامن کا ساتھ ہے دونوں ایک دوسرے کے برے کاموں میں بلاشرکت غیرے کام کرتے ہیں۔اپنی ہی برادری کے ساتھ کچھ انسیت ہوتی ہے یہ پولس میں کچھ زیادہ ہے۔عدل وانصاف کاجس قدرتقاضہ ہے پولس والے اپنے ہی پولس والوں کے خلاف واضح ثبوت ہونے کے باوجودتحقیقات نہیں کرتے۔کس طرح پولس والوں کے منہ سے لگی شراب دورہوجائے گی۔
وہی قاتل،وہی شاہد،وہی منصف ٹھہرے
اقربامیرے کریں قتل کادعویٰ کس پر