لکھنؤ۔(محمدعاصم بیگ)۔ راجدھانی کے ٹرپل مرڈر اور اے ٹی ایم لوٹ کیس کو آج ایک ماہ گزر جانے کے بعد پولیس کی حالت ایک کھسیائی بلی جیسی ہو گئی ہے۔ اتنے عرصہ میں اب تک کل ملاکر سولہ ٹیمیں تشکیل ہوئی تھیں جو ریاست کے علاوہ دیگر شہروں کی خاک چھان کر واپس لوٹ آئیں لیکن شہروں کی دھول کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ یہی نہیں واردات کے دوسرے دن اٹھائیس فروری کو وزیر اعلیٰ نے ڈی جی پی کو ہدایت دی تھی کہ اس واردات کاپردہ فاش کرنے کیلئے وہ لکھنؤ پولیس کو ۱۵ دن کی مدت دے رہے ہیں لیکن انتباہ کا وقت بھی گزر گیا اور پولیس ہمیشہ کی طرح لکیر پیٹتی رہ گئی ۔ شاید وزیر اعلیٰ کو راجدھانی کے اعلیٰ افسروں پر یقین تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے ہدایت دی تھی لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ انہیں کے قریبی ان کی ہدایت کی دھجیاں اڑا دیں گے۔ قاتلوں تک پہنچنے کیلئے جب سارے ہتھکنڈے پولیس کے ناکام ہو گئے تو اب مجبوراً افسران ن
ے لوٹ کی فوٹیج میں دکھ رہے قاتلوں کی تصویر دیوار پر لگاکر عام آدمی کو ایک لاکھ روپئے کے انعام کالالچ دیا ہے۔ دیوار پر لگے پوسٹ پر لکھا ہے جو ان قاتلوں کے بارے میں پولیس کو اطلاع دے گا اسے ایک لاکھ روپئے کا نقد انعام دیا جائے گا۔ پرانے لکھنؤ میں چسپاں پوسٹر میں حسن گنج انسپکٹر، سی او مہانگر اور ایس پی گومتی پار کا سی یو جی نمبر بھی درج ہے۔ جو بھی ان قاتلوں کو جانتا ہو وہ فون پر رابطہ قائم کر سکتا ہے لیکن راجدھانی پولیس کو شاید پوسٹر میں یہ نظر نہیں آرہا ہے کہ جو قاتل موٹرسائیکل چلارہا ہے اس کے منھ پر کپڑا بندھا ہوا تھا اور پیچھے بیٹھے بدمعاش نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا۔ محکمہ جاتی ذرائع کے مطابق دو برس قبل رشوت کے معاملہ میں گومتی پار کے ایک تھانہ سے سپاہی کو برخاست کیا گیا تھا جو پولیس محکمہ کو چھوڑنے کے بعد فیض آباد کے مافیا کے اسامہ گروہ میں کام کرنے لگاتھا۔ کچھ دنوں بعداس کا گروہ کے شارپ شوٹر میں شمار ہونے لگا۔ ذرائع کے مطابق سلطانپور رائے بریلی رنگ روڈ بنانے والی تعمیری کمپنی کے منیجر کو بھی اسی گروہ کے کسی گرگے نے دھمکی دے کر سات کروڑ کا زریرغمال طلب کیا تھا، واردات کے دن سے ایک ہفتہ قبل کمپنی کے منیجرکو فون کیا گیا تھا لیکن معاملہ ہائی پروفائل ہونے کے سبب دال نہیں گلی۔ جس کے بعد حسن گنج لوٹ کیس دیکھنے کو ملا۔ لوٹ کیس کے چار دن بعد برخاست سپاہی خود کو فیض آباد عدالت میں پیش کر کے جیل چلا گیا۔ ذرائع کا ماننا ہے کہ لکھنؤ پولیس سپاہی سے پوچھ گچھ کرنے کی فراق میں مصروف ہے لیکن ابھی تک اس بات کا پتہ نہیں چل سکا ہے کہ پولیس اس تک پہنچ پائی ہے یا نہیں۔