لکھنؤ۔ (نامہ نگار)۔ موہن لال گنج میں بیوہ کے قتل معاملہ میں ایک طرف فورینسک رپورٹ کی بات کہہ رہی ہے وہیں دوسری طرف اب پولیس بھی عصمت دری کی بات سے انکار کر رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سنیچر کو ملی فارینسک رپورٹ میں عصمت دری جیسی کوئی بات نہیں لکھی گئی ہے۔ سوال اب یہ اٹھنے لگا ہے کہ کون صحیح ہے۔ پہلے سے اس معاملہ میں پوسٹ مارٹم رپورٹ پر پس و پیش کی حالت بنی ہوئی ہے۔ ابھی اس معاملہ کو سلجھا یا نہیں جاسکا ہے کہ اب فارینسک رپورٹ کے بار ے میں پولیس نے نیا بیان دے دیا ہے۔ سنیچر کو سی او موہن لال گنج راجیش یادو کودو فورینسک رپورٹ ملی۔ ذرائع کہتے ہیں کہ ایک رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہے کہ خاتون کے ساتھ عصمت دری ہوئی ہے وہیں دوسری رپورٹ میں خاتون کے کپڑے اور
ناخن میں کچھ الگ الگ ڈی این اے بھی ملنے کی بات سامنے آئی ہے۔ پہلی رپورٹ عصمت دری کی بات کہہ رہی ہے تو دوسری رپورٹ میں واردات میں کئی لوگوں کے شامل ہونے کا اندیشہ ظاہرکیا جا رہا ہے۔ کل ملی رپورٹ کے بارے میں پولیس نے اپنی طرف سے کوئی سرکاری بیان نہیں دیا تھا۔ اتوار کو جب اس معاملہ میں سی او موہن لال گنج اور ایس پی دیہات سومتر یادو سے بات کی گئی تو دونوں ہی افسران نے فورینسک رپورٹ سے عصمت دری ہونے کی بات سے صاف انکار کردیا ہے۔ دونوں ہی افسران کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں اس طرح کی کوئی بات نہیں لکھی گئی ہے جو عصمت دری کی رپورٹ کی تصدیق کرے۔ اب سوال اٹھنے لگا ہے کہ فورینسک رپورٹ میں کیا لکھا گیا ہے۔ وہیں دوسری جانب خاتون کے کپڑے اور ناخن میں ایک سے زیادہ لوگوں کے ڈی این اے ملنے کی بات سامنے آئی ہے۔ ایک تو گارڈ رام سیوک کے ہیں بقیہ ڈی این اے کس کے ہیں فی الحال ابھی اس بات کا پتہ نہیں چل سکاہے۔ پولیس کے افسر بار بار یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اس معاملہ میں ابھی اور بھی فورینسک رپورٹ آنی ہے۔ ساری فورینسک رپورٹ آنے کے بعد ہی کسی نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے۔