چوہوں پر ہونے والے تجربات کے نتیجے میں دریافت ہونے والے حقائق کا اطلاق اگر انسانوں پر بھی ہوتا ہے تو عمر رسیدہ دماغ اور پٹھوں کو جوان کرنے کے لیے محض نیا خون لگوانا ہی کافی ہو گا۔اس حوالے سے کی جانے والی دو اسٹڈیز میں جوان چوہوں کا خون بوڑھے چوہوں کو لگایا گیا جس کے بعد ان بوڑھے چوہوں میں عمر کے باعث پیدا ہونے والے دماغی مسائل، سیکھنے کے عمل اور یادداشت میں پیدا ہونے والی کمی کے خاتمے کے علاوہ ان چوہوں کے دماغ میں نئے سیل یعنی نیورونز بھی بننا شروع ہو گئے۔ تیسری تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ نوجوان چوہوں کا خون لگانے سے بوڑھے چوہوں میں (جن کو ایک ۷۰ برس کے انسان سے تشبیہ دی جا سکتی ہے) ورزش کی صلاحیت میں بہتری پیدا ہوئی۔ ۲۰۰۰ کے لیے مشترکہ طور نوبل انعام برائے طب حاصل کرنے والے نیورو سائنسدان ایرک کینڈل کہتے ہیں، ’’میرے خیال میں یہ اسٹڈی نہایت شاندار ہے۔‘‘ کولمبیا یونیورسٹی سے منسلک کینڈل نے یہ انعام مالیکیولر بیسس آف میموری یعنی ’یادداشت کی خلوی بنیاد‘ کے موضوع پر اپنی تحقیق کی بنیاد پر حاصل کیا تھا۔حالیہ اسٹڈیز میں سے ایک کے شائع شدہ نتائج کے بارے میں خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایرک کینڈل کا کہنا تھا، ’’اس تحقیق کے مطابق خون میں ایسے نفوذ پذیر عوامل ہو سکتے ہیں
جو عمر سے متعلق ہوتے ہیں اور اگر آپ ان مادوں کو الگ کر سکیں تو پھر آپ انہیں طاقت پہنچانے والے سپلیمنٹس فراہم کر سکتے ہیں۔‘۸۴ سالہ ایرک کینڈل ان تحقیقوں میں خود شریک نہیں رہے۔
ماضی میں ہونے والی اسٹڈیز سے یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ بوڑھے چوہوں کو جوان چوہوں کا خون لگانے سے ان کے دماغی افعال میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ تاہم حالیہ اسٹڈیز اس حوالے سے اولین ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ جوان خون دراصل عمر کے سبب پیدا ہونے والے مسائل کو دور بھی کر سکتا ہے۔تحقیقی جریدے ’نیچر میڈیسن‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی اور کیلیفورنیا یونیورسٹی سان فرانسسکو کے بائیالوجسٹ شریک تھے جن کی سربراہی ٹونی ویس کورے کر رہے تھے۔ اس تحقیق کے دوران ماہرین نے دو طرح سے بوڑھے چوہوں کو نوجوان خون لگایا۔ پہلے طریقے میں تو انہوں نے تین ماہ کی عمر کے چوہوں کا خون ۱۸؍ ماہ کے چوہوں میں انجیکٹ کیا جبکہ دوسرے طریقے میں انہوں نے نوجوان چوہوں کے نظام دوران خون کو سرجیکلی بوڑھے چوہوں کے نظام دوران خون سے جوڑ دیا۔تحقیقی رپورٹ کے مطابق جوان خون ملنے کے بعد ان بوڑھے چوہوں کی سیکھنے اور یاد رکھنے کے حوالے سے بنائے گئے دو اسٹینڈر ٹیسٹوں میں کارکردگی بہتر ہوئی۔ پانی میں سے گزر کر اپنی منزل تک پہنچے کے لیے ایک ٹیسٹ ’واٹر میز‘ کے دوران انہوں نے بہت کم غلطیاں کیں جبکہ یادداشت کے حوالے سے ایک ٹیسٹ جس میں غلطی کی صورت میں بجلی کا یک جھٹکا دیا جاتا ہے، ان کی کارکردگی میں بہتری دیکھی گئی۔جب ان چوہوں کے دماغوں کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جوان خون حاصل کرنے والے بوڑھے چوہوں کے دماغ میں دیگر چوہوں کی نسبت مثبت اسٹرکچرل اور مالیکیولر تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔