—مشرف عالم ذوقی
آزاد ہندستان کے ۷۶ برسوں کی تاریخ گواہ ہے کہ کانگریس نے سیکولرزم کے خوفناک مکھوٹے کے ذریعہ مسلمانوں کو بیوقوف بنانے اور حاشیے پر رکھنے کا کام کیا ہے۔ دوراقتدار میں کانگریس کے مسلم لیڈران بھی وہی زبانیں بولتے رہے جو کانگریس ان سے بولنے کے لیے کہتی رہی۔ یہ لیڈران کبھی بھی مسلم حمایت میں سامنے نہیں آئے۔ آزادی کے بعد کی تاریخ کا جائزہ لیجئے تو مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم وستم کے پیچھے اگر کسی خوفناک داستان سے واسطہ پڑتا ہے تو پس داستان بھی کانگریس ہوتی ہے۔ آزادی کے ٹھیک ۳ سال بعد پنڈت جواہر لعل نہرو نے جو کام مسلمانوں کے خلاف سیاہ قانون لاکر کیا، وہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ ۵۳۹۱ یعنی انگریزوں کے وقت سے ۰۵۹۱ تک ریزرویشن میں مسلمانوں کو بھی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔
۰۱ اگست ۰۵۹۱ کو پنڈت نہرو کی سفارش پر اس وقت کے صدر جمہوریہ راجندر پرساد کے دستخط سے مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کردیا گیا۔ آرٹیکل ۱۴۳ میں لفظ ہندو کا اضافہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ جو دلت ہندو مذہب کے دائرے میں آتے ہیں، صرف انہیں ہی ریزرویشن کا حق دیا جائے گا۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ اس سیاہ قانون کے خلاف جب سکھوں نے ہنگامہ کیا تو انہیں ریزرویشن کا حق دے دیاگیا۔ ۰۹۹۱ میں بودھ دھرم کے ماننے والوں کو بھی ریزرویشن میں شامل کر لیا گیا مگر مسلمان دلتوں کو ریزرویشن نہ دیاجانا کانگریس کی ایک ایسی سازش تھی جس سے ۰۵۹۱ کے بعد مسلمان طبقہ سیاسی، معاشی، اقتصادی ہر سطح پر کمزور اور پچھڑتا چلا گیا۔ رنگناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کی رپورٹ کے باوجود مسلمانوں کو عام حقوق سے محروم ہی رکھاگیا۔ اگر آپ اس وقت کے سیاسی نظام اور حالات کا جائزہ لیں تو پنڈت نہرو کی دور اندیشی اور مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کی سازش کا پردہ اٹھ جاتا ہے۔ ۷۴۹۱ آزادی تک مسلمان قوم جنگ آزادی کے ساتھ ہر محاذ پر آگے رہی۔ پنڈت نہرو ذہین اور قابل انسان تھے، وہ اس سچ سے واقف تھے کہ دلت مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھنے کا مطلب ہوگا، آنے والے برسوں میں انہیں اقتصادی اور ہر سطح پر کمزور کرنا۔ اور اس کا اثر عام مسلمانوں پر بھی ہوگا۔ پنڈت نہرو کی سازش کام کر گئی اور عام مسلمان سن ۳۱۰۲ تک وہاں پہنچ چکا ہے جہاں سیاسی پارٹیوں نے اسے صرف اور صرف ووٹ بینک سمجھ رکھا ہے۔ اور اس بڑے ووٹ بینک کے باوجود جب یہ پارٹیاں اقتدار میں ہوتی ہیں تو مسلمانوں کا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہوتا۔ وہ کنارے حاشیے پر پھینک دیئے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ آزادی کے بعد سب سے زیادہ فسادات کانگریس کے دوراقتدار میں ہوئے۔ مسلمانوں کا سب سے زیادہ استحصال اسی کانگریس نے کیا۔ بٹلہ ہاﺅس فرضی انکاﺅنٹر سے بابری مسجد فیصلے تک کانگریس نہ صرف مسلمانوں کو گمراہ کرتی رہی بلکہ آزادی کے بعد کا ہر فیصلہ مسلمانوں کے خلاف گیا۔ بابری مسجد کا تالا کھولنے والے بھی کانگریسی تھے۔ ۶ دسمبر ۲۹۹۱ شہادت کے وقت بھی یہی کانگریس تھی۔ اور یہ غور کرنے کی بات ہے کہ مرکزی حکومت کی شہہ کے بغیر نہ بابری مسجد کا المیہ سامنے آسکتا تھا اور نہ مٹھی بھر شیو سینک بابری مسجد کو مسمار کرنے کا گناہ کرسکتے تھے۔ اس دور میں سابق وزیر اعظم نرسمہا راﺅ کے بارے میں یہ کہاوت عام تھی کہ وہ اوپر سے کانگریسی اوراندر سے بھگوا ہیں۔ بھاجپا جب دو سیٹوں سے آگے بڑھ کر رتھ یاتراﺅں کے مہارتھی ال کے اڈوانی کی قیادت میں دوسری بڑی قومی پارٹی بننے کا اشارہ دے رہی تھی، اس وقت بھی اگر مرکزی سرکار چاہتی تو اس تحریک کو روکا جاسکتا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ رتھ روکا گیا تو بہار میں۔ اور تاریخ یہ بھی گواہ ہے کہ کرپشن کے معاملات کو کنارے رکھیں تو ہندستان سیاست کی تاریخ میں صرف اور صرف لالو پرساد یادو کا ہی چہرہ ابھرتا ہے جس نے مسلمانوں سے ہمدردی، اڈوانی کی یاترا کو ناکام بنانے اور سیکولرزم کو ہتھیار کے طور پر اپنانے میں جی جان کی بازی لگادی۔ ورنہ کانگریس تو یہاں بھی ووٹ کی تقسیم اور اپنے انتخابی فائدے کے حساب میں الجھی ہوئی تھی۔
پچھلے ۵۲۔۰۲ برسوں میں مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کانگریس ایک ہی طریقہ کار آزماتی رہی ہے۔ مسلمانوں کو بھاجپا سے ڈراﺅ اور مسلمانوں کا ووٹ اپنے حصہ میں کرو— بھاجپا اور مودی کی مسلم کش اور خطرناک سیاست اسوقت ووٹ کے لیے سارے ہندستان میں فساد کرارہی ہے، یہ کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ لڑنے لڑانے کے یہ بیانات سبرامینم سوامی تک دے چکے ہیں۔ دو تین ماہ قبل چوتھی دنیا نے بھی اپنے اخبار میں یہ سرخی لگائی تھی کہ بھاجپا ہندستان میں فساد کرانے جارہی ہے۔ انڈیا ٹوڈے جیسا رسالہ بھی اس سچ کو تسلیم کرتا ہے۔ مودی نے گجرات کے کلنگ ماسٹر امت شاہ کو یوپی بھیج کر پہلے ہی اپنا منشا صاف کردیا تھا کہ یوپی کو بھی گجرات بنایا جائے گا۔ اور امت شاہ کے آنے کے ساتھ ہی پہلے لکھنو¿ میں شیعہ سنی فساد اور پھر فسادات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ کوسی کلاں، پرتاپ گڑھ سے لے کر دیوبند، میرٹھ، شاملی اور مظفرنگر تک پھیلتا چلا گیا— مظفر نگر اور شاملی میں جو فسادات برپاہوئے، عینی شاہدوں نے اسے گجرات سے بھی بڑا اور خوفناک حادثہ ٹھہرایا۔ ان فسادات میں سپا، اکھیلیش اور ملائم کانام بھی شامل ہوا۔ اور یہ بھی کہاگیا کہ یہ فسادات سپا کے اشارے پر ہوئے تھے۔ مظفر نگر میں جو کچھ بھی ہوا، اس کے لیے سپا کے مجرمانہ کردار کی جہاں نقاب کشائی ہوتی ہے وہیں کانگریس یا مرکزی سرکار کو بھی بخشا نہیں جاسکتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ دنگے مہینوں بھڑکتے رہے اور مرکزی حکومت خاموش تماشائی کیوں بنی رہی؟ کیا ان دنگوں کو روکنے کی ذمہ داری صرف اور صرف صوبائی اور ریاستی سرکاروں کی ہے یا مرکزی حکومت بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے ایسے دنگوں کی روک تھام کر سکتی تھی—؟ آزادی کے بعد کی تاریخ کا جائزہ لیں تو کانگریس کبھی بھی دنگوں کو روکنے تھامنے کے لیے اپنا کردارادا نہیں کر پائی۔ دراصل کانگریس کی نظر شروعات سے ہی فرقہ وارانہ دنگوں کی آڑ میں سیاسی روٹیاں سینکنے کی رہی ہے۔ گجرات حادثہ ہوا تو مسز سونیا گاندھی گجرات جاکر خوفزدہ مسلمانوں کو دلاسہ اور تسلی تو دے ہی سکتی تھیں لیکن کانگریس ایسے ہر معاملے میں صرف اپنا سیاسی فائدہ دیکھنے کاکام کرتی رہی ہے۔
آج راہل گاندھی سیاسی منچ سے مظفر نگر فسادات کے لیے اکھیلیش حکومت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں لیکن کیا راہل گاندھی کی ذمہ داری نہ تھی کہ فسادات کے ساتھ ہی وہ سامنے آکر مسلمانوں کے لیے حق اور انصاف کا بیڑہ اٹھاتے۔ خود مظفر نگر جاکر دنگے کی حقیقت کو بے نقاب کرتے۔
مسلمانوں کے لیے یہ وقت چیلنج اور امتحان کا ہے۔ مسلمان بھاجپا کے دوراقتدار میں ان سیاہ دنوں کو دیکھ چکے ہےں، جب کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کو ذلیل اور رسوا کیا جاتا تھا اوران کے حقوق کو پامال کیا جاتا تھا۔ مسلمان ۷۶ برسوں کی تاریخ میں کانگریس کو بھی آزما چکے ہےں اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ کانگریس کا رویہ تو بھاجپا سے زیادہ خطرناک رہا ہے۔ کیونکہ بھاجپا سیدھے حملہ کرتی ہے اور کانگریس مسلمانوں کو بیوقوف بناکر، سیکولر اور جمہوری کردار کا واسطہ دے کر مسلمانوں سے ووٹ حاصل کرتی ہے۔ اس لیے اگر مسلمان بھاجپا اور کانگریس سے الگ جانا چاہیں تو پھر ایسی کون سی پارٹی ہے جہاں وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکتے ہیں۔؟ صوبائی اور ریاستی سرکار کا معیار یہ ہے کہ وہ کبھی بھاجپا اور کبھی کانگریس کے لیے جھکاﺅ محسوس کرتی ہیں۔ نتیش بھاجپا چھوڑ کر اب کانگریس سے ہاتھ ملانے کی تیاری میں ہیں۔ چندر ا بابو نائیڈو اب کمیونسٹوں اور تیسرے مورچہ کا ساتھ چھوڑ کر بھاجپا اورمودی کا ہاتھ تھامنے کو بیقرار— جئے للتا، مایاوتی کی تاریخ بھی کم وبیش یہی رہی ہے— مسلمانوں کے لیے مسئلہ یہ کہ وہ جائیں تو کہاں جائیں۔ اس بار کی جنگ حق وانصاف سے زیادہ ان کی اپنی شناخت کی بھی جنگ ہے۔ وہ شناخت جسے سیاسی پارٹیاں پچھلے ۷۶ برسوں میں مٹانے کے درپے رہی ہیں اور اس میں کامیاب بھی رہی ہیں۔ مسلمانوں کو مضبوط ووٹ بینک کی حیثیت سے تسلیم بھی کیا جاچکا ہے۔ اس لیے اب مسلمانوں کو اپنا مسلم کارڈ بہت سوچ سمجھ کر کھیلنا ہے۔ اور یہی اس وقت کی بڑی ضرورت بھی ہے۔
Zauqui2005@gmail.com
Mb: 9310532452