شارجہ ۔ انڈین پریمیئر لیگ ( آئی پی ایل ) کے پچھلے سیشن میں کافی اتار چڑھاو دیکھ چکی دہلی ڈیرڈیولس کا ساتویں ایڈیشن میں ‘ چال ، چہرہ اور کردار ‘ مکمل طور پر بدل چکا ہے ۔ لیکن جب وہ جمعرات کو ٹورنامنٹ میں اپنی مہم کی شروعات کرنے اترے گی تو اس کے سامنے بنگلورکا مشکل چیلنج ہوگا ۔ آئی پی ایل سات کی نیلامی میں دہلی ایسی ٹیم رہی جس نے پچھلے سیشن میں اپنے مایوس کن کارکردگی کے پیش نظر تجربہ کار اور دھماکہ خیز بلے باز ویریندر سہواگ سمیت اپنے کسی بھی کھلاڑی کو ٹیم میں برقرار نہیں رکھا ہے ۔ آئی پی ایل چھ میں آخری مقام پر رہی دہلی کی کمان اب انگلینڈ کے سابق بلے باز کیون پیٹرسن کے ہاتھوں میں ہے جبکہ ٹیم انڈیا کو اپنی رہنمائی میں سال 2011 میں ون ڈے ورلڈ کپ دلا چکے گیری کرسٹن ٹیم کے کوچ ہیں ۔ دہلی کی ٹیم اندر
سے لے کر باہر تک بدل چکی ہے اور اس نئے چہرے والی ٹیم کو میدان پر اپنا کردار بھی دکھانا ہوگا ۔
لیکن دوسری طرف اس کا سامنا وراٹ کوہلی کی قیادت والی رائل چیلنجرز بینگلور سے ہونے جا رہا ہے ۔ وراٹ اس وقت زبردست فارم میں ہیں اور ورلڈ کپ ٹوئنٹی 20 کے فائنل میں ٹیم کی شکست کے باوجود مین آف دی سیریز رہے تھے ۔ اس کے علاوہ نیلامی میں سب سے بھاری قیمت 14 کروڑ روپے چکا کر بینگلور نے آل راؤنڈر یوراج سنگھ کو بھی اپنے نام کیا تھا ۔ اس کے علاوہ بینگلور کے پاس اے بی ڈی ولئرس ، دھماکہ خیز بلے بازکیریبین بلے باز کرس گیل ، بڑے اسپنر متھیا مرلی دھرن ، سورج رامپال اور مائیکل اسٹارک جیسے عالمی سطح کے کھلاڑیوں کی بھی پوری فوج ہے جن کے پاس اچھا خاصا تجربہ اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ وراٹ پچھلے سیشن میں بینگلور کی کپتانی کر چکے ہیں اور اپنے زیادہ تر کھلاڑیوں کی صلاحیت کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔
وراٹ نے آئی پی ایل چھ میں 16 میچوں میں بینگلور کے لئے 45۔ 28 کے اوسط سے 634 رن بنائے تھے جبکہ کیریبین بلے باز کرس گیل نے 16 میچز میں ٹیم کی طرف سے 59 کے اوسط سے سب سے زیادہ 708 رن بنائے تھے جس میں ناٹ آئوٹ 175 رن کی ریکارڈ اننگز یادگار تھی ۔ ایسے میں دہلی کے لئے چیلنج کم نہیں ہیں ۔ تمام ٹیمیں اس بارغیرملکی زمین پر ٹورنامنٹ کھیل رہی ہیں اور انہیں یو اے ای کے گراڈس اور یہاں کے حالات کے موافق خود کو ڈھالنا ہوگا تو دہلی ایک نئی ٹیم ہے اور اس کے تمام کھلاڑیوں کو پہلی بار ایک ساتھ نئے کپتان کی قیادت میں ایک ٹیم کی طرح کھیلنا بھی اپنے آپ میں چیلنج ہوگا ۔ دہلی نے بھی آئی پی ایل میں یوراج کے بعد دوسری سب سے بڑی 12 کروڑ کی قیمت دے کر دنیش کارتک کو ٹیم کا حصہ بنایا ہے اور ایسے میں اس وکٹ کیپر بلے باز پر اضافی دباؤ ہوگا ۔ پچھلے سیشن میں ممبئی انڈینس کے لئے کھیل چکے کارتک نے 28۔ 33 کے اوسط سے 19 میچوں میں 510 رنز بنائے تھے جس میں 86 رنز کی اننگز بہترین رہی تھی ۔ اس لئے کارتک پر اب اپنی ٹیم دہلی کے لئے اور بھی بہتر کرنے کی توقع کی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ دہلی کی بلے بازی اس کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہوگی جس میں اس کے پاس کارتک کے علاوہ مرلی وجے جیسے اوپننگ بلے باز ہیں ۔ مرلی نے پچھلے سیشن میں چنئی کے لئے شاندار بلے بازی کی تھی ۔امید ہے کہ مرلی جنوبی افریقی بلے بازڈی کاک کے ساتھ اوپننگ کر سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی غیر ملکی کھلاڑیوں میں سب سے مہنگے فروخت ہویپیٹرسن ، جے پی ڈمن اور نیوزی لینڈ کے راس ٹیلر اور گھریلو کھلاڑیوں میں منوج تیواری ، سوربھ تیواری اور کیدار جادھو سے بھی دہلی کی قسمت تبدیل کرنے کی امید کی جا رہی ہے ۔
ٹیم میں موجود کیوی آل راؤنڈر جیمز نیشام بھی مضبوط کھلاڑیوں میں ہیں ۔ دہلی کی کمزوریوں پر نظر ڈالیں تو راہل شرما اور ندیم کے طور پر اس کے پاس یہ دو ماہر اسپنر ہے جبکہ ڈومنی اپنی قومی ٹیم جنوبی افریقہ کی طرف سے محدود اووروں میں صرف پارٹ ٹائم اسپنر کا کردار ادا کر چکے ہیں ۔ ایسے میں کپتان پیٹرسن کے سامنے میچ میں کافی کم اختیارات بچیں گے ۔ سال 2008 میں سیمی فائنل تک پہنچنے کے بعد سے دہلی کا مظاہرہ ہرسیشن میں بے حد خراب رہی ہے اور وہ سال 2010 میں گروپ مرحلے کو پار نہیں کر سکی تو 2011 میں آخری نمبر پر رہی ۔ سال 2012 میں اس نے واپسی کی کوشش کی لیکن پلے آف میں شکست ہوئی تو 2013 میں وہ پھر آخری مقام پر رہی ۔ دوسری طرف اگر بینگلور کی حالت کو دیکھیں تو وہ دہلی سے فی الحال بہتر دکھائی دیتی ہے ۔ گزشتہ سیشن میں وراٹ کی قیادت میں بینگلور نے کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور وہ 16 میچوں میں نو جیت کر پانچویں مقام پر رہی تھی ۔ لیکن ٹیم ابھی تک خطاب جیتنے میں ناکام رہی ہے ۔ سال 2009 میں جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے دوسرے ایڈیشن میں ڈکن چارجرس نے بینگلور کو فائنل میں شکست دی تھی ۔اس لئے وراٹ اس بار خطاب پر دعویداری پیش کرنے کے لئے سو فیصد کوشش کریں گے ۔ ٹیم کی سب سے بڑی طاقت اس کا جارحانہ بلے بازی آرڈر ہے لیکن کمزوری اچھی شروعات کرنے کے بعد دباؤ میں آنا اور ٹورنامنٹ کے آئندہ میچوں میں تسلسل برقرار رکھنے کی کمی ہے ۔