سیکیولر ترک اخبار ’جمہوریت‘ نے چارلی ایبڈو کے ساتھ یک جہتی کے طور پر رسالے کے حالیہ شمارے کے چار صفحے شائع کیے ہیں، تاہم پیغمبرِ اسلام کا خاکہ شائع کرنے سے گریز کیا ہے
دنیا بھر کے اخباروں نے فرانسیسی رسالے چارلی ایبڈو کے ’سروائیورز‘ ایڈیشن پر غصے، تشویش اور یک جہتی کا ردِ عمل ظاہر کیا ہے جس میں پیغمبرِ اسلام کا
خاکہ شائع کیا گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے اپنے صفحۂ اول پر لکھا: ’فرانسیسی رسالے کا نیا سرورق نئے خوف ساتھ لے کر آیا ہے،‘ اور ’اس بات کا خطرہ ہے کہ چارلی ایبڈو مزید تشدد کا نشانہ بنے۔‘
ترک ادیب مصطفیٰ اکیول نے ایک کالم میں لکھا ہے کہ مسلم دنیا کو توہینِ مذہب کی تصور میں نرمی لانی چاہیے:
’غصہ کچھ اور نہیں صرف ناپختگی کی علامت ہے۔ کسی بھی مذہب کی قوت اس کے ناقدین اور اختلافِ رائے رکھنے والوں پر جبر سے نہیں، اس کے پیروکاروں کی اخلاقی دیانت اور عقلی طاقت سے آتی ہے۔‘
مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے اخباروں نے، جن میں متعدل اخبار بھی شامل ہیں، میگزین کی جانب سے سرورق پر پیغمبرِ اسلام کا خاکہ چھاپنے پر کڑی تنقید کی ہے۔
چارلی ایبڈو کا تازہ شمارہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا اور اس کا ایک اور ایڈیشن شائع کرنا پڑ گیا
اردن کے سرکاری اخبار ’الدستور‘ کے صفحۂ اول کی سرخی تھی: ’چارلی ایبڈو کی اشتعال انگیزی جاری ہے۔‘
کھلی صلیبی جنگ
الجزائر کے روزنامے ’الشروق‘ میں حبیب راشدین نے فرانسیسی حکومت کی جانب سے چارلی ایبڈو کی مالی مدد پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس اقدام نے تمام سرخ لکیریں پار کر دی ہیں، اور یہ مسلمانوں کے خلاف کھلی صلیبی جنگ ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’اب یہ ہر مسلمان کا حق بن گیا ہے کہ وہ فرانس کے سفیروں پر اپنے مذہب کی توہین کا مقدمہ دائر کر دیں۔‘
الجزائر کے ایک اور اخبار ’النہار‘ کے صفحۂ اول پر ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس پر لکھا ہے: ’ہم سب محمد ہیں۔‘
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بھی خاکے کو ’اشتعال انگیزی‘ قرار دیا ہے۔
ایران کے انگریزی ٹیلی ویژن چینل پریس ٹی وی نے خاکے کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے ’مزید نفرت پھیلے گی۔‘
آزادیِ اظہار کو اس مقام پر رک جانا چاہیے جہاں کسی کے رنگ، نسل یا مذہب کی توہین شروع ہوتی ہے۔ قانونی طور پر توہینِ مذہب کو نسل پرستی سمجھنا چاہیے۔
سعودی روزنامہ ’الوطن‘
ترکی کے ایک اسلام پسند اخبار ’یینی اکیت‘ نے چارلی ایبڈو کے خلاف بالخصوص اور مغرب کے خلاف بالعموم ایک پورا صفحہ چھاپا ہے جس کا عنوان ہے ’رسوائی جاری ہے۔‘
اخبار نے لکھا ہے: ’خطرناک حالات کے باوجود سرکش رسالے چارلی ایبڈو اور صہیونی میڈیا کے زیرِ اثر مغربی میڈیا نے مسلمانوں اور مسلم دنیا کے خلاف بزدلانہ حملے جاری رکھے ہیں۔‘
دوسری جانب سیکیولر ترک اخبار ’جمہوریت‘ نے چارلی ایبڈو کے ساتھ یک جہتی کے طور پر رسالے کے حالیہ شمارے کے چار صفحے شائع کیے ہیں، تاہم پیغمبرِ اسلام کا خاکہ شائع کرنے سے گریز کیا ہے۔
منگل کی شام پولیس نے اخبار کے دفتر پر چھاپہ مارا، تاہم جب یہ معلوم ہوا کہ خاکہ شائع نہیں کیا جا رہا تو اخبار کی اشاعت میں مداخلت نہیں کی گئی۔
کئی تبصرہ نگاروں نے فرانس اور دوسرے ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ مذاہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کو غیر قانونی قرار دیں، اور کہا کہ ایسا نہ کیا گیا تو اسلامی انتہاپسندی کو ہوا ملے گی۔
سعودی عرب کے روزنامے ’الوطن‘ نے لکھا ہے کہ ’آزادیِ اظہار کو اس مقام پر رک جانا چاہیے جہاں کسی کے رنگ، نسل یا مذہب کی توہین شروع ہوتی ہے۔ قانونی طور پر توہینِ مذہب کو نسل پرستی سمجھنا چاہیے۔‘
لبنانی اخبار ’الانور‘ نے مغرب پر دہرے معیار کا الزام عائد کیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ ’ایک طرف تو یورپی ملک یہود دشمنی کو جرم قرار دیتے ہیں، تو دوسری جانب دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔‘
آزادیِ اظہار کی حدیں کہاں ہیں؟
ادھر فرانس میں کئی اخباروں نے چارلی ایبڈو کے شمارے کی اچھی فروخت کی خبریں شائع کی ہیں۔ تاہم معتدل اخبار ’لا موند‘ نے اپنی ویب سائٹ پر متنازع مزاح نگار دیودون امبالا امبالا کی گرفتاری پر سوال اٹھایا ہے، جنھوں نے مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت میں بیان دیا تھا۔
اخبار نے پوچھا ہے: ’چارلی، دویودون، آزادیِ اظہار کی حدیں کہاں ہیں؟‘
چین کے سرکاری میڈیا نے چارلی ایبڈو کے پیغمبرِ اسلام کا خاکہ شائع کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مسلمانوں کو غیرضروری طور پر اشتعال دلایا گیا ہے۔
چینی اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے خاکے کو ’غیرمناسب‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر چارلی ایبڈو اسلام کے بارے میں اسی طرح اڑا رہا تو اس سے فرانسیسی حکومت مشکل میں پڑ جائے گی۔‘