کہا جاتا ہے کہ ہنسانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ کسی کو رلایا تو بہت آسانی سے جا سکتا ہے، لیکن دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا ایک دقت طلب کام ہے۔فن کی دنیا میں مزاح ہمیشہ سے ایک دلچسپ لیکن مشکل میدان رہا ہے۔ مزاح لکھنا یا مزاحیہ اداکاری کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ خداداد صلاحیت ہو تی ہے جو کسی کسی کا مقدر بنتی ہے۔ مزاحیہ فلموں کا آغاز اسی دور میں ہوا جب سیلولائیڈ فلمیں بننا شروع ہوئیں اور خاموش فلموں کے دور میں جب ابھی فلموں میں صوتی اثرات کی ٹیکنالوجی کا دور دور تک کچھ پتا نہ تھا تب ہالی وڈ میں کئی نام ور اور کامیاب کامیڈینز نے اپنے فن کا لوہا منوایا، کیوںکہ مکالمے کے ساتھ کامیڈی پرفارم کرنا الگ بات ہے، لیکن آو
از کے بغیر صرف اپنی جسمانی حرکات وسکنات اور چہرے کے تاثرات کے ذریعے کامیڈی کرنا اور وہ بھی اس پائے کی کہ ایک زمانہ اس کا گرویدہ ہو جائے نہایت مشکل کام ہے۔ اس میدان میں اپنے قسم کا ایک ہی اداکار گزرا جس کا نام چارلی چپلن ہے۔ چارلی چپلن دنیائے فلم کی سب سے بڑی انڈسٹری ہالی وڈ کا وہ اسٹار تھا جس نے اپنے دور میں اپنی ہر فلم میں انفرادیت کو قائم رکھنے کے لیے مختلف تجربات کئے اور ان میں وہ کام یاب بھی رہا۔وہ ایک اداکار، فلم ساز، موسیقار، فلم ایڈیٹر، رائٹر، پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر تھا۔ اس نے اپنی پوری زندگی اداکاری کرنے اور فلمیں بنانے میں گزاری۔ اسے اپنے فن سے عشق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی اداکار اسے جانتے ہیں، اس کی کاپی کرتے ہیں، اس کے ہر ہر انداز کو اپناتے ہیں اور ایسا کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اپنے اختیارکردہ کردار The tramp کے ذریعے وہ پوری دنیا میں آئی کون بن گیا۔ اسے دنیائے فلم کی تاریخ میں ایک اہم اور قابل قدر شخصیت مانا جاتا ہے۔ اس کا کیریر تقریباً 75سال پر مشتمل ہے۔ چارلی کی مقبولیت میں اس کے کلاسک کردار دی ٹریمپ کا سب سے زیادہ دخل ہے۔ دی ٹریمپ میں اس کا ظاہری حلیہ ایک لینڈ مارک کی حیثیت رکھتا ہے۔ بیگی پینٹس،bambo cane، بائولر ہیٹ، اوور سائز جوتوں اور ہٹلر اسٹائل کی مونچھوں نے اس کی اصل شخصیت کو گم کردیا اور آج تک وہ دنیا بھر میں اسی حلئے سے پہچانا جاتا ہے۔چارلی چپلن کا پورا نام سر چارلس اسپنسر تھا۔ وہ سولہ اپریل 1889کو لندن میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں کا نام ہنا اور باپ کا نام چارلس چپلن سنیئر تھا۔ چارلی ایک سال کا تھا تو اس کے والدین میں علحیدگی ہوگئی۔ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے اس کی ماں نے اپنے شوہر سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ اسی لیے چارلی کی یادداشت میں اس کے باپ کے حوالے سے کوئی یاد نہیں تھی۔ اس کی ماں تھیٹر کی مقبول اداکارہ تھی اور وہ اپنے کام کا اچھا معاوضہ لیا کرتی تھی۔ اسی لیے بچپن کا ساڑھے تین سال تک دور نہایت خوش گوار اور سہل انداز میں بسر ہوا۔ چارلی سے چار سال بڑا ایک بھائی سڈنی تھا (جو بعدازاں چارلی کا منیجر بنا) چارلی کو اپنے بھائی اور ماں سے بے حد محبت تھی۔ ماں کے کام پر جانے کے بعد یہ سڈنی ہی تھا، جو ننھے چارلی کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔چارلی بچپن ہی سے بہت حساس تھا۔ وہ گھریلو کام کاج میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔ ناسازی طبیعت کی بناء پر جب اس کی ماں نے تھیٹر پر کام کرنا چھوڑ دیا، تب زندگی ان کے لئے آزمائش بن گئی۔ تین سال کی عمر ہی میں چارلی نے تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا شروع کردیا تھا۔ بچپن کے اس انتہائی کسمپرسی کے دور میں ایک وقت وہ بھی تھا جب چارلی کی ماں کو اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ کچھ عرصہ لیمبتھ کے ایک محتاج خانے میں گزارنا پڑا اور جب اس کی ماں نے گھر بیٹھے سلائی کڑھائی کا کام کرنا شروع کیا تب وہ ایک انتہائی پسماندہ علاقے میں بارہ فٹ لمبے اور بارہ فٹ چوڑے کمرے میں بہ طور کرایہ دار زندگی بسر کرنے لگے۔ بچپن کی تکالیف اور مشکلات چارلی کی جھلک چارلی کی پوری زندگی میں کہیں نہ کہیں نظر آتی رہیں۔ اس کی زندگی مسلسل بحرانوں میں گزری بہت کم عمری میں وہ ایسے شراب خانوں کے سامنے گھنٹوں کھڑا رہتا جہاں اس دور کے معروف اداکار اور پروڈیوسر آتے تھے۔ فن سے دل چسپی چارلی کو ورثے میں ملی تھی اسی لیے تصور میں وہ خود کو ان فن کاروں کی جگہ محسوس کرتا تھا۔پانچ برس کی عمر میں پہلی بار چارلی نے اسٹیج کا سامنا کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کی ماں آخری بار تھیٹر پر پرفارم کر رہی تھی، لیکن پرفارمینس کے دوران ہی اس کی طبعیت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ تب چارلی اپنی ماں کے ساتھ تھا اور اسٹیج کی بیک سائڈ پر موجود تھا۔ اس وقت اسٹیج مینجر نے چارلی سے اس کی ماں کی جگہ پرفارم کر نے کو کہا۔ اس وقت چارلی نے آرکسٹرا کی دھن پر ایک مشہور نغمہ جیک جونز گانا شروع کیا، تو لوگوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور یہاں سے اس کے فنی دور کا آغاز ہوا۔ اسی اسٹیج پر اس نے کئی مشہور اداکاروں جس میں اس کی ماں بھی شامل تھی کی پیروڈی پیش کی۔ چارلی کے اس ایکٹ کے تھیٹر میں موجود آڈینس پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ وہ اسٹیج پر چارلی کی پہلی اور اس کی ماں ہنا کی آخری پرفارمینس تھی۔ اس اچھی پرفارمینس پر بھی اس کے دن نہ بدلے اور پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے چارلی نے ہر طرح کے کام کیے، لیکن دل میں صرف اداکار بننے کی لگن تھی۔ وہ ہر روز کا م سے فارغ ہو جانے کے بعد اپنا بہترین لباس پہنتا، جوتے پالش کرتا اور شام کو بلیک مور تھیٹریکل ایجنسی کے چکر کاٹتا۔ چارلی نے اس ایجنسی کے اتنے چکر لگائے کہ ا س کا واحد خوب صورت لباس اس قابل بھی نہ رہا کہ وہ یہاں مزید چکر لگاسکے۔اس کی لگن سچی تھی۔ ایک دن اس کمپنی کے کرتا دھرتا ہملٹن نے چارلی کی مستقل مزاجی کو دیکھتے ہوئے اسے ایک ڈرامے ’’شرلاک ہومز‘‘ میں پیج بوائے، یعنی کم عمر ملازم لڑکے، کا رول دیا۔ یہ چالیس ہفتوں کا ٹور تھا اور اس کے لیے دو پونڈ اور دس شیلنگ فی ہفتہ معاوضہ ملنے لگا۔ اس وقت چارلی کی عمر صرف بارہ سال تھی۔ اس سے پہلے وہ ایک ڈانس گروپ میں بھی کچھ عرصے کے لیے کام کرچکا تھا۔ماں کی وفات چارلی کی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا، پوری زندگی اسے افسوس رہا کہ کام یابی اور عروج کے دور میں اس کی ماں اس کے ساتھ نہیں۔ 1908میں انیس سال کی عمر میں اس نے fred karno pantomime trope کمپنی جوائن کی، جو اسے امریکا لے گئی، جہاں اسے فلم پروڈیوسر mack sennettنے ایک معاہدے کے تحت سائن کیا۔ اس معاہدے کی رو سے چارلی کو ہر ہفتے ایک سو پچاس ڈالر ملنے لگے۔ اس کے بعد1914میں چارلی نے Essaany کمپنی جوائن کی، جو اسے ہر ہفتے دوسو پچاس ڈالر ادا کرتی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب اس نے اپنے بھائی سڈنی کو اپنا بزنس مینجر بنایا۔ اس کمپنی کے ساتھ چارلی نے چودہ فلمیں کیں۔چارلی کی پہلی فلم ’’میک آلیونگ‘‘ تھی۔ 1915میں چارلی نے اپنا دی ٹریمپ والا کردار تخلیق کیا، جس نے اس کے لیے کام یابی کے دروازے کھول دیے اور اس کے مداحوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی گئی۔ تین سال کے بعد چارلی نے اس کمپنی کو خیر باد کہہ دیا اور Mutual کمپنی سے وابستہ ہوگیا، جو اسے ایک سال کے 670,000 ڈالر ادا کرتی تھی۔ اس کمپنی کے ساتھ اس نے 1916 میں ون اے ایم، دی رنک، The vagabondاور ایزی اسٹریٹ میں کام کیا۔ اپنے کیریر کے آغاز ہی سے اس نے اپنی فلمیں ڈائریکٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔ 1918تک وہ دنیا کی جانی مانی شخصیت بن چکا تھا۔ 1919 میں اس نے ایک ڈسٹری بیوشن کمپنی یونائیٹڈ آرٹسٹ کی بنیاد رکھی۔اسے پرفیکشنسٹ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ وہ بہت باریک بیں اور ذہین تھا۔ فلموں میں کیے جانے والے تجربات کے ساتھ اس کے جنون سے ہر کوئی آگاہ تھا۔ کسی بھی سین کو کرنے کے لیے وہ کئی کئی بار ری ٹیکس دینے کے بعد فائنل شاٹ ’’اوکے‘‘ کرتا تھا۔ وہ پروڈیوسر کے معاملات میں بہت زیادہ دخل اندازی کرتا اور اکثر اوقات اس کی فرمائش پر کاسٹ سے لے کر کریو تک کے عملے کو تبدیل کردیا جاتا تھا۔ اس کی حد سے زیادہ دخل اندازی بہت سے لوگوں کو گراں گزرتی، لیکن وہ وقت کا بادشاہ تھا۔ تمام تر غلطیوں کے باوجود اس کی قسمت کا ستارہ عروج پر تھا۔1920کا عشرہ چارلی کی زندگی کا سنہرا دور تھا۔ اس دور میں اس کی کئی یادگا ر فلمیں دی کڈز1921، دی پلگرم1923، آوومن ان پیرس 1923، دی گولڈ رش1925اور دی سرکس1928میں بنی۔ آخری کی تین فلمیں چارلی کی اپنی کمپنی یونائیٹڈ آرٹسٹ کے تحت ریلیز کی گئیں۔ 1930سے 1931تک وہ فلموں میں مصروف رہا۔ اسی سال بننے والی فلم دی سٹی لائٹس نے تجارتی بنیادوں پر زبردست کام یابی حاصل کی۔ اس فلم کے میوزک نے چارلی کی کام یابی کو اور زیادہ مستحکم کردیا۔ 1936میں دی ماڈرن ٹائمز میں چارلی نے اپنے مشہور زمانہ کردار دی ٹریمپ کے بغیر کام کیا۔1940میں بننے والی فلم دی گریٹ ڈائریکٹر میں چارلی نے ہٹلر اور مسولینی کو طنزومزاح کا نشانہ بنایا اور اس فلم کے ذریعے ان پر سخت نکتہ چینی کی گئی۔ اس فلم کی وجہ سے چارلی کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ چارلی کی پہلی بولتی فلم تھی۔ ایک امریکن لڑکی کے ساتھ تعلقات کی بنا پر اسے امریکا میں سخت تنازعات کا سامنا کر نا پڑا۔ اسی تمام باتوں سے گھبرا کر امریکا کو خیرباد کہہ دیا اور سوئٹزرلینڈ میں سکونت اختیار کی۔ بعد میں اس کی آنے والی فلموں میں Monsieur verdoox 1947،لائم لائٹ1952، آکنگ ان نیویارک 1957اور اکائونٹیس فرام ہانگ کانگ1967شامل ہیں۔آف اسکرین بھی اس کی بہت مقبولیت تھی۔ وہ اپنی ہر فلم کی ہیروئن کے ساتھ عشق لڑاتا تھا۔ اس نے چار شادیاں کیں اور اس کی چاروں بیویاں بہت کم عمر تھیں۔ اس کی پہلی شادی 1918میں mildred harrisکے ساتھ ہوئی، جس کی عمر صرف سولہ سال جب کہ چارلی کی عمر انتیس سال تھی۔ یہ شادی دو سال تک رہی۔ اس کے بعد اس نے دوسری شادی سولہ سالہ lita greyسے کی۔ لیٹا کو چارلی نے اپنی فلم دی گولڈ رش میں کاسٹ کیا تھا۔ یہ شادی 1927 میں ختم ہو گئی۔ 1936میں چارلی نے اٹھائیس سالہ اداکارہ paulette goddardسے شادی کی۔ اس وقت چارلی کی عمر سینتالیس سال تھی۔ چھے سال بعد چارلی نے اس سے بھی علیحدگی اختیار کرلی اور پھر 1943میں ایک پلے رائٹر کی اٹھارہ سالہ بیٹی oona o neil سے کی۔ اس وقت چارلی 54 سال کا ہوچکا تھا اونا کے ساتھ چارلی کی زندگی بہت خوش گوار گزری اور اس کے آٹھ بچے ہوئے۔چارلی چپلن اس دور کا وہ واحد اداکار تھا، جس کی چھے جولائی1925کے ٹائم میگزین نے سرورق پر تصویر شائع کی تھی۔پورے فلم کیریر میں صرف ایک بار 1929میں چارلی کو آسکر کا اعزازی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ یہ آسکر ایوارڈ کی پہلی تقریب تھی۔ 1972 میں ایک بار پھر فلم لائم لائٹ کے لیے اسپیشل آسکر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ یہ فلم چارلی نے اکیس سال قبل بنائی تھی۔ اسی سال یہ چارلی کا امریکا ایک طویل عرصے کے بعد آخری دورہ تھا۔1930 میں موشن پکچرز کے تحت اس نے دو فلمیں کیں، جس کی ڈائریکشن، اسٹوری اور ایکٹنگ سب چارلی کی تھی۔ ان دونوں فلموں میں کوئی ڈائیلاگز نہیں تھا۔چارلی نے چار شادیاں کیں اور اس کی تمام بیویاں اس سے انتہائی کم عمر تھیں۔ایک اداکارہ john barry کے ساتھ اس کے خفیہ تعلقات تھے۔ اس اداکارہ کا دعویٰ تھا کہ چارلی اس کی ناجائز بیٹی کا باپ ہے، جب کہ چارلی نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا۔ اس تنازعے کی وجہ سے چارلی کو عدالتی کروائی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور عدالت کے حکم سے ایک لمبے عرصے تک اس اداکارہ کی بیٹی کا خرچہ اٹھاتا رہا تھا۔چارلی کا ایک ناول فٹ لائٹس 66سال کے بعد شائع ہوا۔ اس ناول کو ڈیوڈ رابنسن نے مرتب کیا تھا۔ 1952میں بننے والی چارلی کی فلم لائم لائٹس بھی اسی ناول پر مبنی تھی۔ اٹلی کے شہر بولوینا میں چپلن آرکائیوز میں اس ناول کے ابتدائی حصے ملے تھے۔ چپلن آرکائیوز میں ایک لاکھ سے زاید دستاویز موجود ہیں۔چارلی کی بیٹی Geraldine chaplinنے 1992میں ہالی وڈ میں چارلی چپلن کی زندگی پر بننے والی فلم میں چارلی کی ماں ہنا کا کردار کیا تھا۔چالی کی وفات25 دسمبر1977کو سوئٹزرلینڈ میں ہوئی۔ اس کی موت کے تین مہینوں کے چارلی کی ڈیڈ باڈی چوری ہو گئی تھی، چوروں نے باڈی کے عوض ایک خطیر رقم کا مطالبہ کیا تھا، لیکن پولیس کی کارروائی سے اس کی ڈیڈ باڈی کو بازیاب کرالیا گیا تھا اور پھر اسے دوسری جگہ چھے فٹ گہری قبر میں دفنایا گیا تھا۔