منگل کو ہی عراقی حکومت نے ایک بیان میں سعودی حکومت پر شدت پسندوں کی مالی امداد کرنے کا الزام عائد کیا جسے ریاض نے مسترد کیا ہے
عراق کے وزیرِ اعظم نوری المالکی نے سنی شدت پسندوں کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکامی پر چار سینیئر فوجی کمانڈروں کو برطرف کر دیا ہے جبکہ عراق میں سکیورٹی فورسز کی سنی شدت پسند جنگجوؤں کے ساتھ شدید جھڑپیں جاری ہیں جو بغداد کے قریب پہنچتے جا رہے ہیں۔
جنگجوؤں نے پیر کی رات بغداد سے 60 کلومیٹر دور واقع شہر بعقوبہ کے بعض حصوں پر قبضہ کر لیا تھا تاہم اب سکیورٹی حکام کے مطابق شہر پر دوبارہ مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔
حکومت کی طرف سے منگل کو جاری ایک بیان کے مطابق فوجی کمانڈروں کو اپنی ’قومی فریضہ‘ ادا کرنے میں ناکامی پر برطرف کیا گیا۔
برطرف کیے گئے فوجی افسروں میں نینوا صوبے کے کمانڈر بھی شامل ہے۔ نینوا پہلا صوبہ ہے جہاں داعش کے جنگجوؤں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔
سرکاری بیان کے مطابق ایک اور سینیئر فوجی افسر کو میدانِ جنگ میں اپنی پوزیش چھوڑنے کے الزام میں ان کی غیر موجودگی میں کورٹ مارشل کیا جائے گا۔
منگل کو ہی عراقی حکومت نے ایک بیان میں سعودی حکومت پر شدت پسندوں کی مالی امداد کرنے کا الزام عائد کیا جسے ریاض نے مسترد کیا ہے۔
برطرف فوجی کمانڈر
برطرف کیے گئے فوجی افسروں میں نینوا صوبے کے کمانڈر بھی شامل ہیں۔ نینوا پہلا صوبہ ہے جہاں داعش کے جنگجوؤں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ بیان کے مطابق ایک اور سینیئر فوجی افسر کو میدانِ جنگ میں اپنی پوزیش چھوڑنے کے الزام میں ان کی غیر موجودگی میں کورٹ مارشل کیا جائے گا۔
دوسری جانب دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارتخانے کے تحفظ کے لیے 275 امریکی فوجی تعینات کیے جا رہے ہیں۔
اس دوران عراق کے خود مختار کُرد علاقے کے وزیرِاعظم نیشروان برزنی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے خیال میں عراق ایک اکائی کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ملک کی سنی آبادی میں یہ احساس تیزی سے ساتھ بڑھ رہا کہ عراق کی شیعہ اکثریتی حکومت ان کو نظر انداز کر رہی ہے۔
گذشتہ چند دنوں کے دوران سنی شدت پسند تنظیم دولت اسلامی عراق و شام، داعش نے بغداد کی طرف پیش رفت کرتے ہوئے پیر کی رات بعقوبہ کے بعض حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
قبل ازیں وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ بغداد میں 275 امریکی فوجیوں کی تعیناتی سفارت خانے کو سکیورٹی فراہم کرنے اور سفارت خانے کے عملے کو عارضی طور محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مدد دینے کے لیے کی جا رہی ہے۔
گذشتہ ہفتے سُنی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ عراق و شام (آئی ایس آئی ایس یا داعش) کے جنگجوؤں نے موصل اور تکریت سمیت کئی دوسرے قصبوں پر قبضہ کر لیا تھا، مگر عراقی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے کئی قصبے جنگجوؤں کے قبضے سے آزاد کروا لیے ہیں۔
ایران سے بات چیت
“امریکہ عراق میں سلامتی کے معاملے پر ایران سے براہ راست بات چیت کے بارے میں غور کر رہا ہے۔ تاہم حکام نے دونوں ممالک کے درمیان فوجی معاونت کے امکان کو رد کر دیا”
امریکی اہلکار
ادھر ایک امریکی اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ عراق میں سلامتی کے معاملے پر ایران سے براہ راست بات چیت کے بارے میں غور کر رہا ہے۔ تاہم حکام نے دونوں ممالک کے درمیان فوجی معاونت کے امکان کو رد کر دیا۔
واضح رہے کہ یہ بات چیت عراق کے سلسلے میں امریکی صدر براک اوباما کے مختلف آپشنز پر غور کے دوران سامنے آئی۔
دریں اثنا امریکہ نے داعش کی پوسٹ کردہ تصاویر کو ’خوفناک‘ قرار دیا جن میں بظاہر نظر آ رہا ہے کہ جنگجو عراقی فوجیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
ان تصاویر میں نقاب پوش جنگجوؤں کو کئی عراقی فوجیوں کو لے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس کے بعد انھیں کھائیوں میں لیٹا ہوا دکھایا گیا ہے۔ ان میں ہلاک کرنے سے قبل اور بعد کی تصاویر شامل ہیں۔
عراقی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل قاسم الموسوی نے ان تصاویر کے اصلی ہونے کی تصدیق کی ہے، تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
ادھر عراق میں بڑھتے ہوئے تشدد کے ممکنہ جواب کے لیے ایک امریکی طیارہ خلیج میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے خبردار کیا ہے کہ جب تک عراقی رہنما اپنے فرقہ وارانہ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں نہیں کریں گے تو شدت پسند کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے دی جانے والی امریکی امداد کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ نے کہا ہے کہ سُنی شدت پسند تنظیم داعش کے جنگجوؤں نے پکڑے گئے سینکڑوں فوجیوں کو بغیر کسی شفاف مقدمے کے سزائے موت دی ہے۔
عراقی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے کئی قصبے جنگجوؤں کے قبضے سے آزاد کروا لیے ہیں
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ ناوی پلے نے کہا کہ منظم طریقے سے لوگوں کو قتل کرنا ’یقیناً جنگی جرائم کے مترادف ہے۔‘
بغداد میں مختلف تنصیبات پر سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق 275 فوجیوں کا کام بغداد میں امریکی سفارت خانے سے عملے کو بصرہ اور اربیل میں قونصل خانوں میں منتقل کرنا ہوگا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک سو اہلکار فضائی اڈوں کی سکیورٹی اور انتظامات میں مدد فراہم کریں گے۔
اس کے علاوہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فوجی ملک میں عراقی حکومت کی اجازت سے داخل ہو رہے ہیں۔ا مریکی حکام کا کہنا ہے کہ بغداد میں امریکی سفارت خانہ اپنا کام جاری رکھے گا۔
خبر رساں ادارے اے پی نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایک محدود حد تک سپیشل فورسز کو عراقی افواج کی تربیت کے لیے بھی تعینات کیا جائے تاہم ابھی ایسے کسی مشن کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔