پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قومی ادارے این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ چترال میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے 33 پل بہہ گئے ہیں جبکہ کئی سڑکوں کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں 130 دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔
این ڈی ام اے کے ترجمان احمد کمال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پل بہہ جانے کے باعث کئی علاقوں تک امدادی سامان کی ترسیل مشکل ہے۔
این ڈی ایم اے نے مزید کہا کہ متاثرہ افراد کی تعداد کا ابھی تک تعئین نہیں ہو سکا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی ار کے مطابق فوج اور ایف سی کی جانب سے دو ہیلی کاپٹر کے ذریعے چترال میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں تک کھانے پینے کے سامان کا آٹھ ٹن پہنچا دیا گیا ہے جبکہ 50 افراد کو بھی بچایا گیا ہے۔
دوسری جانب، سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے چترال میں ہلاکتوں اور نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور این ڈی ایم اے کو فوری وہاں فوری امداد بھیجنے کی ہدایت کی ہے۔
احمد کمال نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ پنجاب میں کے ضلع لیہ میں 70 گاؤں، راجن پور میں 50 اور مظفرگڑھ کے 10 گاؤں زیرِ آب آئے ہیں۔
میری محمکہ موسمیات سے بات ہوئی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ چترال میں ایک غیر معمولی صورتِ حال پیدا ہوئی کہ سیلابی ریلوں کے ساتھ ساتھ گرم مون سون بارش نے گلیشئرز کے پگلنے کا عمل شروع کیا جس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بہت زیادہ تھا۔
این ڈی ایم اے
’دریائے سندھ اور کابل کے علاوہ تمام دریا میں پانی کی سطح معمول پر ہے اور یہ مزید کم ہو رہی ہے۔ دریائے راوی، چناب، ستلج اور جہلم میں پانی کی سطح معمول پر ہے۔ ان دریاؤں میں جو پانی بھارت سے آرہا ہے اس سے فی الحال سیلاب کا خدشہ نہیں ہے۔‘
مزید تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ پر واقع کالا باغ، چشمہ اور تونسہ بیراج پر درمیانی سطح کے سیلاب کی صورتِ حال ہے۔
’صوبے پنجاب کے ضلع میانوالی میں واقع تونسہ پر پانی کی سطح چڑھ رہی ہے جبکہ باقی تمام مقامات پر کم ہو رہا ہے۔‘
احمد کمال نے بتایا کہ چترال میں موسم کی خرابی، رابطے منقطع ہونے سے اور عید کی چھٹیوں کی وجہ سے چترال کے کئی علاقوں تک رسائی مشکل ہے۔ تاہم قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کو امدادی سامان پہنچانے کی ہدایت دے دی گئی ہے۔
’میری محمکہ موسمیات سے بات ہوئی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ چترال میں ایک غیر معمولی صورتِ حال پیدا ہوئی کہ سیلابی ریلوں کے ساتھ ساتھ گرم مون سون بارش نے گلیشئرز کے پگھلنے کا عمل شروع کیا جس کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بہت زیادہ تھا۔‘
انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان گلیشئرز کے پگھلنے کی وجہ سے مزید نقصان ہو سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کی پریس ریلیز کے مطابق چترال میں سات سڑکوں کو بحال کر دیا گیا ہے جبکہ ادارے کی امدای ٹیمیں چترال کے لیے روانہ ہو گئی ہیں۔
احمد کمال نے باقی ملک کی صورتِ حال بتاتے ہوئے کہا کہ دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ ’کل ایک لاکھ گیارہ ہزار کیوسک پانی تھا اورگر کے پچانوے ہزار کیوسک ہے اور پانی مزید گرے گا۔‘
’تربیلا ڈیم کی زیادہ سے زیادہ گنجائش 1550 فٹ ہے۔ ہمارے پاس 1526 کی سطح ہے۔ ابھی چوبیس فٹ کی گنجائش ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ منگلا ڈیم میں بھی ابھی نو فٹ کی گنجائش ہے لیکن انھوں نے ساتھ ساتھ متنبہ کیا کہ اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں میں پانی کی روک تھام اور چھوڑنے کے عمل میں احتیاط کی جائے گی تاکہ سیلاب کی صورتِ حال پیدا نہ ہو۔
این ڈی ایم اے کے ترجمان احمد کمال کہتے ہیں کہ ’آپ قدرت کو روک نہیں سکتے لیکن نقصان کو کم کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔‘
آئی ایس پی ار کے مطابق فوج اور ایف سی کی جانب سے دو ہیلی کاپٹر کے ذریعے چترال میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں تک کھانے پینے کے سامان کا آٹھ ٹن پہنچا دیا گیا ہے جبکہ 50 افراد کو بھی بچایا گیا ہے
کراچی سے ہمارے نامہ نگار احمد رضا کے مطابق حکومت سندھ نے کہا ہے کہ صوبے میں سیلاب کا فی الوقت کوئی خطرہ نہیں اور بندوں کی صورتحال تسلی بخش ہے تاہم گڈو اور سکھر بیراج کے کچے کے علاقے میں آباد لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی ممکنہ خطرے کے پیش نظر محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائیں۔
صوبائی سیکریٹری آبپاشی سید ظہیر حیدر شاہ نے بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رواں ہفتے کے اختتام پر گڈو اور سکھر بیراج سے پانچ لاکھ کیوسک پانی کا ریلہ گزرنے کا امکان ہے جبکہ دونوں بیراجوں سے دس سے بارہ لاکھ کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش موجود ہے۔
’ہم نے احتیاطاً دریا کے ساتھ ساتھ آباد لوگوں سے درخواست کی ہے کہ آپ برائے مہربانی اوپر چلے جائیں تاکہ کسی بھی قسم کے جانی اور مالی نقصان سے بچا جاسکے۔‘
انہوں نے کہا کہ محکمہ آبپاشی، محکمہ موسمیات سے مسلسل رابطے میں ہے اور اسکے مشورے سے بارشوں کی صورتحال کے مطابق ہر سات دن بعد سیلاب کی پیش گوئی جاری کی جائے گی۔
حکومت سندھ نے دریائے سندھ میں سیلابی صورتحال کے پیش نظر گڈو، سکھر اور کوٹڑی بیراجوں پر کنٹرول رومز قائم کردیے ہیں جبکہ صوبائی سیکریٹریٹ کراچی میں مرکزی کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔