پشاور: اتوار کے روز شہر کے معروف چرچ پر ہونے والے دو خودکش دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 83 ہو گئی ہے، جبکہ ان حملوں کے خلاف پیر کے روز ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور احتجاج کے سبب صوبائی دارالحکومت اور خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔
احتجاج، ماتمی جلوسوں اور اہم شخصیات کی نقل و حرکت کی بناء پر شہر میں ٹریفک معمول سے خاصا کم رہا۔
مسیحی برادری کے ناراض کارکنوں نے اتوار کے روز آل سینٹ چرچ پر ہونے والے خودکش حملوں کے خلاف شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاج کے دوران گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، سڑکیں بلاک کر دیں اور احتجاجی مظاہرے کیے۔
دوسری جانب ان دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کے عزیز و اقارب گورا قبرستان اور وزیر باغ قبرستان میں اپنے پیاروں کی تدفین میں مصروف رہے۔
حالات کی نزاکت کا اندازہ لگاتے ہوئے، پولیس نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے مناسب انتظامات کیے تھے اور مظاہرین کو ان کے علاقوں تک محدود رکھنے کے لیے مرکزی سڑکوں پر خاردار تار لگا دیے تھے۔ ان اقدامات کی وجہ سے شیر شاہ سوری روڈ، یونیورسٹی روڈ اور جی ٹی روڈ پر ٹریفک کی روانی متاثر رہی۔
بڑا گیٹ، امیدآباد، تخل اور پشتخرہ سے آنے والے ڈنڈا بردار مظاہرین نے یونیورسٹی روڈ بلاک کر دیا جبکہ چند نوجوانوں نے ہوائی فائرنگ بھی کی۔ مظاہرین کا اصل نشانہ خیبر اور جی ٹی روڈ تھا جہاں انہوں نے سوری پل کے نزدیک پرانے ٹائر جلائے جس کی وجہ سے بہت سی گاڑیاں ملک سعد خان فلائی اور اور خیبر بازار میں پھنس کر رہ گئیں۔
چیک پوائنٹس پر متعین پولیس نے مظاہرین کو اپنے علاقوں میں واپس جانے پر مجبور کیا تاہم اس دوران کنٹونمنٹ اور شہر کے درمیان سفر کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر اقلیتوں کی حفاظت اور ان افسوسناک واقعات میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری اور کارروائی کے مطالبے درج تھے۔
سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی موجودگی کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کاموں پر پیدل پہنچی کیونکہ موٹر سائیکلوں کو بھی سڑکوں پر آنے نہیں دیا جا رہا تھا۔
اس دوران پولیس گوہاٹی گیٹ کے چرچ کے آس پاس الرٹ رہی جہاں مسیحی برادری کے افراد نے ہلاک شدگان اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعائیں کیں۔
پشاور شہر میں مسیحی برادری سے اظہار یکجہتی کے لیے تقریباً تمام شاپنگ سینٹرز اور بازار بند رہے جبکہ تمام مشنری اسکول بھی بند تھے۔ صوبائی حکومت اور مختلف سیاسی جماعتوں نے اتوار سے تین دن کا سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ایک ترجمان کے مطابق، دو سو چودہ زخمیوں کو اسپتال لایا گیا تھا جن میں سے پانچ افراد پیر کے روز ہلاک ہو گئے۔ زخمیوں میں سے 68 افراد، جن میں اٹھائیس خواتین بھی شامل تھیں طبّی امداد کے بعد اسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔
مرنے والے 83 افراد میں سے چھتیس خواتین ہیں۔
پولیس نے نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف مقدمہ درج دیا ہے اور ان خودکش حملوں کی تحقیقات کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
سٹی سرکل کے ایس پی اسماعیل خٹک کا کہنا ہے کہ پولیس اس واقعہ کی تفتیش مختلف پہلووں سے کر رہی ہے اور شہر میں دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے والوں کے خلاف سراغ حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔
صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی اس افسوسناک واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے، جن میں مالاکنڈ ایجنسی، نوشہرہ، درہ اسماعیل خان اور کرک شامل ہیں۔ مظاہرین نے اقلیتوں کے خلاف دہشت گرد حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔
اے ایف پی: حملے کا نشانہ بننے والے چرچ کے باہر مظاہرین نے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ خیبر پختونخواہ میں ان کی پارٹی کے زیرِقیادت ایک اتحادی حکومت قائم ہے۔ چند مظاہرین نے عمران خان کے خلاف نازیبا نعرے بازی بھی کی۔