ایسا کبھی کبھار کہا جاتا ہے کہ ایک ساتھ بہت سارے کیلے کھانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں چھ سے زائد کیلے کھانے سے آپ کی موت ہوسکتی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
کیلے دنیا کے مقبول ترین پھلوں میں سے ایک ہیں جن میں ویٹامن اور منرلز شامل ہوتے ہیں۔ بظاہر یہ آپ کی صحت کے لیے بے حد مفید ہے تاہم اس کے باوجود لوگ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کی جان بھی لے سکتا ہے؟
اس خیال کو نامور شخصیت کارل پلکنگٹن نے عام کیا۔ ساتھی کامیڈین سٹیفن مرچنٹ سے گفتگو کے دوران ایک موقع پر ان کا کہنا تھا کہ میں کیلوں سے متعلق ایک حقیقت جانتا ہوں کہ آپ اگر چھ سے زائد کھائیں تو مرسکتے ہیں۔
گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایک حقیقیت ہے۔ چھ کیلے کھانے سے آپ کے جسم میں پوٹاشیم کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے۔ میں نے ایک برتن دیکھا جس میں چھ کیلے رکھے تھے پوچھیے کیوں؟ کیوں کہ سات خطرناک ثابت ہوسکتے تھے۔’
تو آخر پوٹاشیم کتنا خطرناک ہے؟
سینٹ جارجز ہسپتال لندن کی غذائی ماہر (Dietitian) کیتھرین کولنز کے مطابق حقیقت میں زندہ رہنے کے لیے پوٹاشیم شدید ضرورت ہوتی ہے۔
ان کے مطابق پوٹاشیم سے الیکٹریکل چارج پیدا ہوتا ہے جس سے سیلز درست انداز میں کام کرتے ہیں۔ اس کے باعث دل کی دھڑکن درست رہتی ہے، یہ لبلبے سے انسولین کے خارج ہونے کا باعث بنتا ہے جس سے خون میں شکر کی تعداد کنٹرول ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ پوٹاشیم بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔
دوسری جانب اگر جسم میں پوٹاشیم بہت زیادہ یا بہت کم ہوجائے تو اس سے دل کی دھڑکن بےترتیب ہوسکتی ہے، پیٹ میں درد، متلی اور پیٹ کی خرابی جیسی بیماریوں کا بھی باعث بن سکتا ہے۔
تاہم کولز کا کہنا ہے کہ ایک صحت مند شخص کے لیے کیلے کھاکر مرجانا تقریباً ناممکن سی بات ہے۔
ان کے مطابق پوٹاشیم کی جان لیوا تعداد جسم میں بنانے کے لیے روزانہ تقریباً 400 کے لگ بھگ کیلے کھانے ہوں گے جس کے بعد دل کی دھڑکن رک سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیلے خطرناک نہیں ہیں بلکہ یہ آپ کی صحت کے لیے بہترین ہیں۔
تاہم ڈاکٹر کالنز کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ افراد خصوصاً گردے کی بیماری میں مبتلا افراد کو پوٹاشیم سے بھرپور غذا سے دور رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے مریضوں کو زیادہ پوٹاشیم والی غذاؤں سے دور رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔