لکھنؤ۔ (نامہ نگار)۔ وزیر اعلیٰ کے حکم پر شہر میں چل رہی چیکنگ مہم کا پارہ گرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بیدار ہوئے اسٹنٹ باز اور ہائی اسپیڈ موٹر سائیکل سے چلنے والے ریسروں نے اپنا راستہ بدل لیا ہے۔ پولیس
۱۰۹۰ چوراہے پر ان کا انتظار کیا کرتی ہے لیکن ان کی جگہ عام باشندے بلی چڑھتے ہیں بھلے ہی اس کی گاڑی ہائی اسپیڈ موٹر سائیکل ہو یا نہ ہو۔ تیز رفتار موٹرسائیکل چلانے والے اور اسٹنٹ کرنے والوں کے خلاف تین دن سے چل رہی چیکنگ مہم صرف خانہ پُری دکھتی نظر آرہی ہے۔ پہلے اور تیسرے دن کا موازنہ کیا جائے تو چیکنگ میں روکی گئی گاڑیوں کی گنتی میں نصف کی گراوٹ آئی ہے۔ اس بات کے پس پشت سبب یہ مانا جا رہا ہے کہ تین دن سے مسلسل ایک ہی چوراہے ۱۰۹۰ پر چیکنگ چلانے سے اسٹنٹ باز ہوشیار ہوگئے ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر ہے کہ شام ۶ بجے کے بعد اگر گومتی نگر کی طرف گئے تو وہاں پر ان کا انتظار پولیس کی لاٹھی کررہی ہے اسی لئے ان نوجوانوں نے اپنا کرتب دکھانے کی جگہ کو بدل دیا ہے۔ اس چیکنگ کے چنگل میں اسٹنٹ کرنے والے تو کم پھنس رہے ہیں لیکن عام آدمیوں کو بے سبب پریشانی اور تکلیف کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اتوار کو یعنی چیکنگ کے پہلے دن ایس ایس پی نے کہا تھا کہ یہ مہم صرف تیز رفتار موٹر سائیکل چلانے والوں اور سڑک پر اسٹنٹ کر کے راہ گیروں کو زخمی کرنے والوں کے خلاف چلائی جا رہی ہے۔ پہلے دن کی گئی چیکنگ میں ۳۵۳۶ گاڑیاں روکی گئیں، ۸۲۹ کا چالان اور ۱۰۲ موٹر سائیکلیں سیز کی گئیں۔ وہیں دوسرے دن ۲۵۱۵
گاڑیاں روکی گئیں جس میں ۱۵۰ کا چالان اور ۶۲ موٹر سائیکلیں سیز ہوئیں اور منگل کو چیکنگ کے دوران گاڑیاں ۱۸۹۷روکی گئیں جس میں چالان کی تعداد ۳۶۰ اور ۲۵ گاڑیاں سیز کی گئیں۔ اب اس میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اتنے لوگوں میںکیا سب اسٹنٹ کر رہے تھے یا پھر یہ سب لوگ فراٹا بھر کر گاڑی چلا رہے تھے۔