لکھنؤ۔(نامہ نگار)۔ٹھاکر گنج کے رہنے والے بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر انوپ باجپئی کے گھر ڈکیتی کا پورا منصوبہ ان کے برسوں پرانے ڈرائیور منوج نے پانچ بدمعاشوں کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ پولیس اور سرویلانس سیل کی ٹیم نے ڈکیتی کا پردہ فاش کرتے ہوئے ڈرائیور سمیت چھ ملزمین کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس نے ان کے قبضہ سے ڈاکٹر کے گھر سے لوٹے گئے سولہ لاکھ ۳۵ ہزار روپئے نقد، سولہ موبائل فون ، متعدد اسلحے اور دیگر سامان برآمد کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایس پی مغربی اجے کمار مشرا نے بتایا کہ گزشتہ انتیس اکتوبر کو بدمعاشوں نے ڈاکٹر کے بزرگ والدین کو یرغمال بناکر ڈکیتی کی واردات انجام دی تھی۔ تفتیش کے دوران پولیس کو ڈاکٹر کے گھر کے پاس لگے ایک سی سی ٹی وی کیمرے میں بدمعاشوں کی فوٹیج حاصل ہوئی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے اپنی تفتیش کو آگے بڑھاتے ہوئے سرویلانس کی مدد حاصل کی تھی۔ پولیس کو ڈاکٹر کے گھر کام کرنے والے ڈرائیور منوج پر شبہ ہوا۔ پولیس نے جب اس کو حراست میں لیکر پوچھ گچھ شروع کی تو پہلے تو اس نے پولیس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں وہ پولیس کے سوالوں کے جواب نہ دے سکا۔ اس کے بعد منوج نے ڈکیتی کی پوری واردات انجام دینے کی بات قبول کر لی۔ پولیس نے منوج کی مدد سے واردات میں شامل پانچ بدمعاشوں ٹھاکر گنج کا رہنے والا محمد حیدر، تحسین گنج کا عرفان حیدر، مصاحب گنج کا مل عباس، ٹھاکر گنج کا ضمن رضوی اور سنیل قنوجیا کو گرفتار کر لیا۔ پولیس کے مطابق ان کے قبضہ سے سولہ لاکھ ۳۵ ہزار روپئے نقد، سولہ موبائل فون ، ایک پستول ، دو طمنچے ،چاقو، پیچکش وغیرہ کے ساتھ ہی کچھ کپڑے بھی برآمد کئے۔
بتایا جا رہا ہے کہ منوج ڈاکٹر انوپ باجپئی کے یہاں ۸ سال سے کام کر رہا ہے۔ ڈاکٹر انوپ اس پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتے تھے۔ انہیں یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ جس ڈرائیور کو وہ اپنا سب سے وفادار مان رہے ہیں اصل میں وہ ہی مجرم ہے۔ ڈاکٹر انوپ باجپئی کے گھر ڈکیتی کی واردات میں شامل تمام نوجوان پہلی بار اس طرح کی واردات کو انجام دے رہے تھے۔ ایس پی کرائم ڈی کے سنگھ نے بتایا کہ محمد حیدر بی بی ڈی سے ہوٹل مینجمنٹ کی پڑھائی کر رہا ہے جبکہ ضمن رجوی آکسفورڈ کالج میں ۱۲ویں درجہ کا طالب علم ہے جبکہ عرفان زردوزی کا کام کرتا ہے اور کامل اور سنیل پرائیویٹ ملازمت کرتے ہیں۔ جرائم کی دنیا میں نئے ہونے کے باوجود ان بدمعاشوں نے بالکل پیشہ ور بدمعاشوں کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ دیوالی سے قبل ڈرائیور منوج نے محمد حیدر کے ساتھ مل کر ڈکیتی کا منصوبہ بنایا ۔اس کے بعد اپنے دیگر ساتھیوں کو اس کام کیلئے تیار کیا۔ سبھی نے حضرت گنج واقع ایک دکان سے ماسک خریدے۔ ڈکیتی کے دوران بدمعاشوں نے انگریزی کے حروف اے ، بی ، سی ، ڈی اور ای رکھے تھے تا کہ کوئی ان کا نام نہیں جا ن سکے۔
واردات کے دوران یہ لوگ اپنے کوڈ نام سے ہی بات چیت کرتے تھے۔
پولیس نے بتایا کہ برآمد کئے گئے سولہ موبائل فون لال مسجد کے پاس ایک دکان سے اکتوبر ماہ میں چوری کئے گئے تھے۔ ڈاکٹر انوپ باجپئی نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک زمین تین کروڑ میں فروخت کی تھی اس بات کی اطلاع منوج کو تھی۔اسے لگا تھا کہ زمین فروخت کی رقم گھر میں ہی رکھی گئی ہے۔ اسی کی لالچ میں اس نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ڈکیتی کا منصوبہ بنا ڈالا۔ مذکورہ ڈکیتی کا پردہ فاش کرنے میں ٹھاکر گنج پولیس اور سرویلانس سیل کی ٹیم نے اہم کردار ادا کیا۔ واردات کو بے نقاب کرنے والی ٹیم میں ایس او ٹھاکر گنج سمر بہادر یادو، سرویلانس سیل کے انچارج اکشے کمار، انوراگ مشرا، راجیش سنگھ، اتل شریواستو، رنجیت سنگھ، جمال احمد، امریش ترپاٹھی ،یوگیندر کمار، انل سنگھ، شیر حیدر، امت کمار، سنیل رائے، روی شکلا، سجیت سنگھ، مرتیونجے کمار ، آشوتوش رائے، مکٹ سنگھ اور کملیش کمار شامل تھے۔