لکھنو؛ مشاعروں کے بے مثال ناظم،ادیب،مصنف ،شاعر ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد نے بھی بالاخر اس دنیا کو چھوڑ دیا۔ ادبی محفلوں اور مشاعروں کی جان سمجھے جاتے ملک زادہ منظور احمد کافی دنوں سے علیل تھے اور آج انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
١٧ اکتوبر ١٩٢٩ کو بھیدن پور میں پیدا ہوئے ملک زادہ منظور احمد ابتا سے ہی انتہائی ہوشیار اور قابل واقع ہوئے تھے۔اور انہوں نے کم عمری سے ہی اشعار نظم کرنا شروع کردئے تھے۔شاعری لے علاوہ انکی نظام اور نظامت سے زیادہ انکلی لکھنو یونورسٹی میںعلم کی تقسیم قابل ذکر ہے۔
متعدد کتابوں کے مصنف ملک زادہ کی کتابیں اردو کا مسئلہ،کالج گرل،مولانا ابولکلام آزاد،فکر و فن،شہر ستم،رقص شرر،شعر و ادب اور مولانا آزاد الہلال کے آئینہ جیسی کتابوں کی وجہ سے اردو دنیا میں شہرت کے بام و در بنے۔
لکھنو یونیورسٹی سے شعبہ اردو ڈپارٹمنٹ سے سبکدوشی کے بعد انکا سارا وقت تصنیف و تالیف میں گزرتا اور مشاعروں میں انکی نظامت کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔شاعر اور سامعین دونوں ہی انکے جملوں سے
ملک زادہ منظور احمد نے اردو زبان کے سلسلے میں جو کوششیں کی ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ وہ صرف مشاعروں کے اسٹیج کی ہی شاہجہانی شخصیت نہیں ہیں بلکہ اردو ان کے روح کا حصہ رہی اور ایک عرصہ سے وہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اردو رسم الخط سے واقفیت اس لیے ضروری ہے کہ اس میں تہذیب بھی ہے اور مذہب بھی ۔
سابق صدر شعبہ اردو لکھنو یوورسٹی پروفیسر انیس اشفاق نے ملک زادہ صاحب کی رحلت پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ انکو ادب کے دیگر اصناف کے علاوہ نظامت میں بہت مہارت حاصل تھی اور ادبی چاشںٰ،برمحل اشعار کا استعمال اور برجستگی انکا طرہ امتیاز تھا۔پروفیسر انیس اشفاق نے بتایا کہ مشاعروں میں سامعین کی جانب سے مزاحیہ جملوں کو برمحل اور برجستگی سے جواب دیکر لاجواب کردئتے تھے۔مشاعروں کی کامیابی میں انکی نظامت کا بھی اہم رول ہوتا تھا۔