لکھنؤ(نامہ نگار)بجلی چوری کی فیصد ہو یا پھر لائن نقصانات کے اعدادوشمار، تقسیم کمپنیوں میں الگ الگ ہیں۔ ایسے میں ڈسکام وار بجلی کی شرحیں اس بار مختلف ہو سکتی ہیں۔ ڈسکام یعنی تقسیم کمپنیوںنے اپنے اے آر آر (سالانہ ریوینو ضرورت) میں کئی ایسے نکات کو اجاگر کیا ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریگولیٹری کمیشن کمپنیوںکی بجلی شرحیں الگ الگ طے کر دیں۔
ریاست میں بجلی شرحوںکو لے کر مچی افراتفری کے درمیان یہ بات سامنے آرہی ہے کہ اس بار ٹیرف میں کچھ نیا ہو سکتا ہے۔ سبھی کمپنیاں ریگولیٹری کمیشن میں اے آر آر پہلے ہی داخل کرچکی ہیں اوراب کمیشن ٹیرف معاملہ میں سماعت کر رہا ہے اور اس کے بعد طے ہوگا کہ بجلی شرحوں میں اضافہ ہو گا یا نہیں۔ اگر ہوگا تو اضافے کا فیصد کیا ہوگا اتنا ہی ریگولیٹری سرچارج کے ختم ہونے اور کم ہونے کا امکان کتنا ہے۔ فی الحال کمپنی وار ٹیرف کو لے کر بحث تیز ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ کیسکو میں صارفین سے ریگولیٹری سرچارج نہیں لیاجاتا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے ٹیرف اور مدھیانچل کے ٹیرف میں کچھ فرق ہے۔ میرٹھ کے کچھ صارفین نے کمیشن میں عرضی داخل کی ہے کہ کمپنی کا خسارہ دیگر کمپنیوںکے مقابلہ میں کم ہے ایسے میں انہیں اس کا فائدہ دیاجانا چاہئے اور ان کی شرحوں میں زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح کچھ تنظیموں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ کئی اضلاع میں بجلی چوری کا فیصد زیادہے اور لائن نقصانات بھی ۵۰فیصد سے اوپر ہے۔ ان کی بجلی شرحیں زیادہ ہونا چاہئے نہ کہ ان علاقوں میں جہاں لوگ احتیاط سے بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں بجلی چوری زیادہ ہوتی ہے وہاں پر سختی کے ساتھ بجلی کی شرحیں بھی بڑھنا چاہئے نہ کہ اس خسارہ کی تلافی دیگر لوگوں سے کی جائے۔ ایسی باتوںکے اجاگر ہونے کے بعد کمیشن کے سامنے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ان نکات پر بھی توجہ دے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان بنیادوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ کہاجا سکتا ہے کہ کمیشن ڈسکام وار بجلی کی شرحیں الگ الگ کر دے اگر ایسا ہوتا ہے تو لوگوں کو بہت راحت ملے گی۔