ہم اکثر اداسی، بیزاری، چڑچڑاہٹ جیسی کیفیات کا سامنا کرتے ہیں۔ بعض اوقات ذہنی تناؤکی کوئی ٹھوس وجہ ہوتی ہے اور اکثر ہم اس کا سبب جان ہی نہیں پاتے۔
یہ کیفیت عموماً چند روز میں خود ہی ختم ہو جاتی ہے، لیکن مسلسل مایوسی اور بیزاری طاری رہے تو اس کا علاج کروانا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہم اسے ڈپریشن کہتے ہیں۔ اس مرض کی علامات میں اداسی یا مایوسی، بات بات پر دل برداشتہ ہونا، تفریح اور میل جول سے کترانا، جسمانی تھکن، بے چینی، نیند میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔ ڈپریشن کی وجہ سے انسان کسی موذی اور تکلیف دہ مرض کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ خواتین میں ذہنی تناؤ کی شرح مردوں کے مقابلے میں
زیادہ ہے۔ اس کے علاج میں مریض کے قریبی دوست یا رشتہ دار اہم تصور کیے جاتے ہیں۔
ڈپریشن ہر معاشرے میں پایا جانے والا مرض ہے۔ امریکا کی مشی گن یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے شکار افراد کے دماغ میں موجود ایک کیمیائی مادے کا تعلق بھوک اوراسٹریس کے کنٹرول سے ہوتا ہے، جس کی بہت زیادہ کمی مسئلہ پیدا کرتی ہے۔ دماغ میں موجود Neuropeptide کم مقدار میں ہوں تو ڈپریشن کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں اور یہ شدید بھی ہوتا ہے۔ یہ مرض موروثی بھی ہو سکتا ہے۔
ماہرینِ دماغی صحت کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کی ایک عام وجہ زندگی کی مشکلات اور حالات و واقعات ہیں، لیکن یہ موروثی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا تعلق خوراک اور دواؤں سے بھی ہے۔ دواؤں کے ضمنی اثرات ہمارے جسم اور ذہن دونوں پر ظاہر ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی تناؤ میں شدت کی صورت میں اس کا شکار فرد خودکشی کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ اسے مختلف خیالات ستانے لگتے ہیں، لیکن وہ اپنے قریبی دوست یا کسی قابلِ بھروسا شخص سے اپنے دل کی بات کہے اور کیفیت بیان کرے تو اسے فائدہ ہوگا۔
ماہرینِ نفسیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنی پریشانی یا معمول کی سرگرمیوں کو تحریر کرنے سے بھی ڈپریشن سے بتدریج نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ مرض موزوں اور بروقت علاج سے جاتا رہتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں میں اس بیماری کا پھیلاؤتو جاری ہے، مگر اس کی تشخیص اور روک تھام کے لیے کوششیں کم ہی دیکھی گئی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ لوگوں کا اس مرض سے لاعلم ہونا ہے۔ اکثر مریض ڈاکٹر کے پاس ہی نہیں جاتے، کیوں کہ ان کے نزدیک یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ ایک وقتی کیفیت ہے۔