نئی دہلی:کالے دھن کے خلاف حکومت کی مہم کے وجہ سے یومیہ مزدوروں پر نئی آفت آن پڑی ہے اور ان غریبوں کی مزدوری بھی ماری جارہی ہے ۔پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ کا چلن اچانک بند ہوجانے کے بعد انہیں بدلنے کے لئے عام لوگوں کی طرح ہی یومیہ مزدوروں کو اپنا کام کاج چھوڑ کر بینکوں کے سامنے گھنٹوں قطار میں کھڑا ہونا پڑ رہا ہے ۔باہری دہلی کا علاقہ صنعتی یونٹوں سے بھرا پڑا ہے جہاں بڑی تعداد میں مزدور ٹھیکہ پر کام کرتے ہیں۔
انہیں مزدوری یومیہ کے حساب سے ملتی ہے ۔ یہ مزدور اقتصادی طور پر کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن کے پاس جمع پونجی برائے نام ہوتی ہے ۔ روز کمانا اور روز کھانا کے حساب سے ان کی زندگی چلتی ہے اور ایسے میں روز گھنٹوں بینک کے سامنے جا کر کھڑا ہونے سے ان کی آمدنی پر مار پڑ رہی ہے ۔
شمال مغربی دہلی کے پیرا گڑھی سے ادیوگ نگر تک بڑی تعداد میں صنعتی یونٹیں ہیں ۔ ان میں کام کرنے والے مزدوروں نے اپنی پریشانی سناتے ہوئے کہا کہ حکومت چوری کا پیسہ رکھنے والوں کے خلاف چاہے جو بھی کرے ہم غریبوں کو کیوں مار رہی ہے ہم نے کیا قصور کیا ہے ۔ ہماری تو روز کی کمائی ماری جارہی ہے ۔ صبح صبح بینک کے آگے لائن لگانی پڑ رہی ہے ۔ شام کوکہیں جاکر پیسہ ملتا ہے وہ بھی پورا نہیں۔ فیکٹری مالک یومیہ مزدوری کا پیسہ کاٹ لیتا ہے ۔ اس نقصان کو پورا کون کرے گا۔ کیا مودی جی دیں گے ہماری مزدوری۔ فیکٹری والوں سے کہیں کہ ہمیں پیسے نکالنے کے لئے چھٹی دیں۔ایسی ہی ایک صنعتی یونٹ میں کام کرنے والے مزدور جمنا نے کہا کہ ہمیں تو زیادہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ پیسہ بدلنے کے لئے فارم بھرنے کے لئے دوسروں سے درخواست کرنی پڑتی ہے ۔ کوئی بینک کہتا ہے کہ ایک بار میں چار ہزار بدل گئے تو اب دس دن بعد آنا ۔ کوئی کہتا ہے کہ روز ملے گا۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ۔
اگر ملک کا پیسہ چوری کر کے کوئی بھاگ گیا ہے تو اس کا خمیازہ ہمیں اٹھانے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے ۔
شوہر کی موت کے بعد بہار سے کام کی امید میں دہلی آنے والی ایک خاتون شیاما نے کہا کہ روز صبح بچوں کو اسکول بھیج کر گھر کا کام کاج نمٹانے کے بعد دوڑتے بھاگتے فیکٹری پہنچتی ہوں ۔ ذرا سی دیر ہوجاے تو مالک آدھے دن کا پیسہ کاٹ لیتا ہے ۔ اس پر اب یہ نوٹ بدلنے کی مصیبت آن پڑی ہے ۔ کہاں کیسے کیا کریں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔باہری دہلی ہی نہیں پورے دہلی میں ہر جگہ یہی حال ہے ۔ بینکوں کے سامنے لمبی قطاریں ہیں۔ اے ٹیم ہے تو ان میں پیسے نہیں ہیں۔ حتی کہ ریزرو بینک کے بالکل سامنے واقع ممبران پارلیمنٹ کی رہائش گاہ، وی پی ہاوس میں اے ٹی ایم سے پیسہ نکالنے کے لئے جب یہ نامہ نگار وہاں پہنچا تو وہ بھی خالی پڑا تھا۔ اے ٹی ایم کی اسکرین پر پیغام آرہا تھا۔ ” اس اے ٹی ایم میں پیسہ نہیں ہے ، آپ قریبی اے ٹی ایم جائیں۔”
کچھ اے ٹی ایم تھوڑی دیر چلنے کے بعد دم توڑ دے رہے ہیں۔ بینک عوام کے ساتھ تعاون کررہے ہیں لیکن ان کے پاس بھی مناسب تعداد میں نقدی نہیں پہنچ رہی ہے ۔ا یسے میں چار ہزار کے بجائے دو دو ہزار روپے دے کر کام چلایا جارہا ہے ۔حالانکہ اس پریشانی کے باوجود لوگوں کا ماننا ہے کہ کالے دھن کے خلاف لگام ضروری لگنی چاہئے لیکن ساتھ ہی ان کی رائے ہے کہ اس کے لئے ایک چاق چوبند نظم کرنے کے بعد ہی حکومت کو اس طرح کا قدم اٹھانا چاہئے تھا۔