ایبولا سے ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 1427 ہو چکی ہے
افریقی ملک جمہوریہ کانگو میں حکام نے ملک کے شمالی علاقوں میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کی تصدیق کر دی ہے۔
کانگو کے وزیرِ صحت فیلکس نمبی نے بی بی سی کو بتایا کہ دو مریضوں کے تجزیوں سے پتہ چلا ہے کہ ایکواٹیور صوبے میں ایبولا کی بیماری موجود ہے اور وہاں اس سے 13 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ہلاکتیں ایک الگ تھلگ علاقے میں ہوئی ہیں اور یہ وائرس مغربی افریقہ میں پائے جانے والے ایبولا وائرس سے مختلف ہے۔
ڈاکٹر نمبی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایبولا کی تصدیق کے بعد علاقے میں بیماری
کو محدود کرنے کے لیے ’کورنٹین زون‘ یا قرنطینہ بھی قائم کر دیے گئے ہیں۔
کانگو مغربی افریقہ کے باہر پہلا ایسا ملک ہے جہاں ایبولا کے مرض کی تصدیق ہوئی ہے۔
اب تک ایبولا سے ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 1427 ہو چکی ہے جبکہ مریضوں کی کل تعداد 2600 سے زیادہ ہے۔
جمہوریہ کانگو کے صوبے ایکواٹیور میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران متعدد افراد غیرمعمولی بخار میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے ہیں۔
ایبولا کا پھیلاؤ
ایبولا کا وائرس فروری میں گنی سے پھیلنا شروع ہوا تھا اور اب تک وہ لائبیریا، سیرالیون، نائجیریا اور کانگو تک پھیل چکا ہے۔
وزیرِ صحت کا کہنا ہے کہ یہ واقعات بوئندے نامی علاقے میں پیش آئے ہیں اور وہاں 100 کلومیٹر کے علاقے کو قرنطینہ قرار دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق یہ کانگو میں ایبولا کی وبا پھیلنے کا ساتواں واقعہ ہے۔ یہ وائرس پہلی مرتبہ کانگو میں ہی 1976 میں دریائے ایبولا کے قریب پایا گیا تھا۔
ادھر سنیچر کو ایبولا سے متاثرہ افریقی ملک سیئرالیون کی پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت ایبولا کے مریض کو چھپانا جرم ہوگا۔
اگر صدر اس کی منظوری دے دیتے ہیں تو ایسا کرنے والے کو دو سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔
عالمی ادارۂ صحت پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس جس رفتار اور شدت سے پھیلا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
اقوامِ متحدہ کا یہ ذیلی ادارہ پہلے ہی ایبولا کو کلِک صحت کی بین الاقوامی ایمرجنسی قرار دے چکا ہے۔
ایبولا کا وائرس فروری میں گنی سے پھیلنا شروع ہوا تھا اور اب تک وہ لائبیریا، سیئرالیون اور نائجیریا تک پھیل چکا ہے۔
تاحال ایبولا کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے لیکن کچھ افراد زیڈ میپ نامی تجرباتی دوا کے استعمال سے شفایاب ہوئے ہیں لیکن اب یہ دوا بھی دستیاب نہیں ہے۔