عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان میں موجود مسلح ایرانی کرد تنظیموں کو تہران حکومت نے شدت پسند مذہبی تنظیم دولت اسلامی عراق وشام ‘داعش’ کے خلاف لڑائی سے روک دیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق کردستان میں موجود کرد گروپوں کے ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت نے ایران کے دباؤ کے بعد مسلح گروپوں سے کہا ہے
کہ وہ داعش کے خلاف لڑائی چھوڑ دیں اور محاذ جنگ سے اپنی بیرکوں میں واپس چلے جائیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں ایران کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی نے کردستان کی البشمرکہ فوج کے ساتھ داعش کے خلاف لڑائی کے لیے اپنے 250 جنگجو ارسال کیے تھے۔ یہ جنگجو شمالی عراق میں مخمور اور دیگر علاقوں میں لڑائی میں حصہ بھی لے چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ایران کرد تنظیموں بالخصوص کوملہ، آزادی اور خبات کے عناصر بھی عراق کے صوبہ کردستان میں موجود ہیں۔ انہوں نے صوبائی فوج البشمرکہ کے ساتھ مل کر داعش کے جنگجوؤں کےخلاف لڑنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
کرد ذرائع نے برطانیہ کے فارسی زبان میں نشریات پیش کرنے والے میڈیا کو بتایا کہ کردستان کی صوبائی حکومت نے ایران سے تعلق رکھنے والے کرد جنگجو گروپوں سے کہا ہے کہ وہ داعش کےخلاف لڑائی ترک کرکے اپنے مورچوں میں واپس چلے جائیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کرد مسلح گروپوں کو داعش کے خلاف لڑائی روکنے کی براہ راست ہدایات ایرانی پاسداران انقلاب کی بیرون ملک سرگرم ملیشیا القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی نے دی ہیں۔
نیوز ویب پورٹل ‘پلٹن نیوز’ کے مطابق صوبہ کردستان کی البشمرکہ وزارت کی جانب سے باضابطہ طور پر ایران سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کو میدان جنگ چھوڑنے اور واپس اپنے مراکز میں رجوع کرنے کی ہدایات دے دی ہیں۔ مبصرین کے خیال میں ایرانی حکومت کی جانب سے کرد جنگجوؤں کو داعش کے خلاف لڑائی سے اس لیے روکا گیا تاکہ ایران کے اندر ممکنہ طور پر کسی بھی شورش کی راہ روکی جائے۔
حالیہ چند ماہ کے دوران ایرانی حدود میں کرد جنگجوؤں اور ایرانی پاسداران انقلاب کے درمیان خونریز جھڑپوں میں دونوں طرف سے سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔