کابل ۔ ”افغانستان میں کسی امریکی کے بجائے ایک کتّے کو دیکھنا زیادہ بہتر ہے”۔یہ الفاظ جنگ زدہ ملک میں مقیم آخری معلوم یہودی کے ہیں۔وہ امریکی فوج کے اپنے ملک میں قیام کے دس بارہ سال کے بعد قیام امن نہ ہونے پر نالاں ہے۔
اس یہودی کا نام زبلون سیمنتوف ہے۔وہ اپنے مذہب کا راسخ العقیدہ پیروکار ہے اور ہمیشہ یہودیوں کی مخصوص مختصر ٹوپی طاقیہ پہنتا ہے لیکن دوسروں سے ملاقات سے قبل اپنی اس ٹوپی کو اتار لیتا ہے تا کہ وہ اس کے بارے میں کوئی غلط خیال دل میں نہ لائیں۔
پچاس سالہ زبلون سیمنتوف نے افغان دارالحکومت کابل میں ایک خستہ حال عمارت میں کیفے بنا رکھا ہے۔اسی عمارت میں اس ملک میں یہودیوں کا آخری معبد الکنیس قائم ہے اور زبلون ہی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
زبلون نے ہمیشہ اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کی ہے اور افغانستان میں آخری یہودی ہونے کی مشہوری سے گریز کیا ہے۔2005ء میں ایک اور بزرگ یہودی انتقال کرگیا تھا جس کے بعد وہ اس ملک کے واحد یہودی ٹھہرے ہیں۔انھوں نے چار سال قبل الکنیس کی عمارت ہی میں ”بلخ بستان” کے نام سے کباب کیفے کھولا تھا۔اس کا نام افغانستان کے ایک شمالی صوبے کے نام پر رکھا گیا تھا۔
انھوں نے برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ ”یہاں تمام کھانے مسلمان تیار کرتے ہیں”۔مگر اب اس کیفے کو بندش کا سامنا ہے کیونکہ کبابوں کی بِکری کم ہوگئی ہے۔اس کی بڑی وجہ کابل میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہےاور لوگ اپنے گھروں سے نکلنے اور شہر میں کسی جگہ جاکر کھانے سے گریز کرتے ہیں۔
انھیں اس سے پہلے باہر سے بھی کھانوں کے آرڈر ملا کرتے تھے لیکن افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلاء کے آغاز کے بعد سے ان آرڈروں میں کمی واقع ہوچکی ہے۔زبلون نے بتایا کہ ہوٹل کو کھانے کے 400 سے 500 تک آرڈر ملا کرتے تھے اور چار یا پانچ چولھے سہ پہر سے شام تک چلتے رہتے تھے لیکن اب میں آیندہ ماہ مارچ میں اپنے ریستوراں کو بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔اس کے بعد اس جگہ کو کرائے پر دے دیا جائے گا۔
دوپہرکے کھانے کے وقت صرف دو گاہک ایک میز پر بیٹھے تھے۔انھوں نے بعض افغان کھانوں کے آرڈر دیے۔ان میں سے کوئی بھی ہوٹل کے مالک زبلون کی تاریخ سے آگاہ نہیں تھا اور وہ بھی صرف اس لیے ادھر آگئے تھے کہ پڑوس میں واقع ایک کیفے بند ہوگیا تھا جہاں لذیذ افغان نوڈلز ملا کرتے تھے۔
افغانستان میں یہودیوں کی اصلیت کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس ملک میں دوہزار سال سے رہتے چلے آرہے ہیں۔بیسویں صدی کے آغاز میں افغانستان میں مقیم یہودیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔وہ مختلف شہروں میں رہ رہے تھے مگران کے دوسرے ممالک میں مقیم یہودیوں سے بہت کم تعلقات تھے۔
لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہودیوں کے جتھوں کے جتھے اس ملک سے جانا شروع ہوگئے۔ان میں سے زیادہ تر گزری صدی کے وسط میں فلسطینی سرزمین پر قائم گئی یہودی ریاست اسرائیل میں جابسے تھے۔سیمنتوف کی اہلیہ اور بیٹیاں بھی صہیونی ریاست میں رہنے کے لیے چلی گئی تھیں لیکن انھوں نے اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور وہ اب اکیلے ہی کابل میں رہتے ہیں۔
خاک آلود اور خستہ حال
زبلون سیمنتوف کا آبائی تعلق افغانستان کے مغربی شہر ہرات سے ہے۔ایک زمانے میں یہ شہر یہودی ثقافت کا اہم مرکز تھا۔انھوں نے خستہ حال عمارت میں واقع کنیس میں مذہبی احکام پر مبنی پوسٹر آویزاں کررکھے ہیں اور اس میں بعض دعائیہ کتب بھی موجود ہیں جنھیں وہ وہاں آنے والوں کو دکھاتے ہیں۔وہ نزدیک واقع قبرستان کی بھی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
جنگ زدہ افغانستان میں یہودی ہی نہیں سکڑے بلکہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہورہی ہے۔عیسائی یہاں سے نقل مکانی کرکے دوسرے ممالک میں چلے گئے ہیں اور کوئی بھی علانیہ طور پر اپنے مسیحی ہونے کا اقرار نہیں کرتا۔افغان دارالحکومت میں صرف ایک ہی چرچ ہے اور وہ اٹلی کے سفارت خانے کی عمارت میں ہے۔اس ملک میں ہندو اقلیت میں آباد ہیں لیکن اب ان کی تعداد بھی کم ہورہی ہے۔
افغان دارالحکومت اور دوسرے شہروں میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر کوئی بھی کاروبار چلانا مشکل ہورہا ہے۔امریکا کی قیادت میں غیرملکی فوج نے اکتوبر 2001ء میں اس ملک پر فوجی چڑھائی کی تھی۔وہ دوایک ماہ ہی میں طالبان کے پانچ سالہ اقتدار کے خاتمے میں تو کامیاب رہے تھے لیکن وہ دس بارہ سال کی جنگ کے بعد اس ملک میں امن وامان کے قیام میں ناکام رہے ہیں۔بم دھماکے ،فائرنگ اور جرائم روزمرہ زندگی کا معمول ہیں۔
زبلون نے بتایا کہ ان کے کیفے کو 45ہزار ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔اس کے علاوہ 2001ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے سے چندے قبل ان کے والد کے جمع کردہ نوادرات کو لوٹ لیا گیا تھا۔اب انھیں توقع ہے کہ عمارت کو کرائے پر دینے سے انھیں اتنی آمدن ہوجائے کرے گی جس سے وہ کنیسہ کی تزئین نو کرسکیں گے۔
وہ اپنے عقیدے کا پیروکار رہنے کے لیے تو پُرعزم ہیں لیکن وہ امریکا کی قیادت میں نیٹو فوج کی جنگ زدہ ملک میں ناکامیوں پر نالاں ہیں۔ان کہنا ہے کہ غیرملکی فوجیں طالبان کے خوف سے پاک امن وسلامتی کا ماحول قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اسی کے پیش نظر وہ امریکیوں کے لیے کوئی اچھے جذبات نہیں رکھتے اور ان کا کہنا ہے کہ ”ایک امریکی کو دیکھنے کے بجائے ایک کتّے کو دیکھنا زیادہ بہتر ہے۔اگراس ملک میں صورت حال اس سے بدتر ہوئی تو وہ بھی پھر یہاں سے بھاگ جائیں گے”۔