کشمیر میں بی جے پی سیاست میں فاروق عبداللہ اور مفتی محمد سعید کی خاندانی اجارہ داری ختم کرنے کے وعدے کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھی۔
2014 کی یہ آخری ڈائری ہے۔ نئے سال میں آپ بلاشبہ نئی آرزوؤں اور امنگوں کے ساتھ قدم رکھیں گے، اور کچھ نئے عزائم کے ساتھ بھی، لیکن اگر یہ سب کچھ
آپ نے رواں سال کے آغاز میں بھی کیا تھا تو شاید اب تک آپ کو یہ احساس ہو چکا ہوگا کہ آسانی سے بدلتا کچھ نہیں ہے۔
بالی وڈ کے سابق سٹار سنجے دت کو ہی لیجیے۔ انہیں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن پابندی سے چھٹی پر گھر آتے رہتے ہیں۔
کبھی بیوی کے علاج کے لیے کبھی اپنے اور اب انہیں پھر 15 دن کی’چھٹی‘ دے دی گئی ہے، اس مرتبہ رشتہ داروں سے ملنے کے لیے! ایسا لگتا ہے جیسے جیل نہیں نوکری پر گئے ہوئے ہیں۔
گزشتہ مئی سے اب تک وہ تقریباً چار مہینے گھر پر گزار چکے ہیں، 2014 کو خوش آمدید کہنے کے لیے بھی وہ گھر پر ہی تھے، اسے الوداع بھی گھر پر ہی کہیں گے!
سنجے دت کو 15 دن کے لیے جیل سے چھٹی ملی ہے
دوسرے قیدی شاید رشک کر رہے ہوں گے لیکن غلطی ان کی اپنی ہے، جیل جانے سے پہلے انہیں فلموں میں کام کرنے سے کس نے روکا تھا؟
یا پھر آپ ان ہندو تنظیموں کو ہی لیجیے جنہوں نے ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ’گھر واپس‘ لانے کی مہم چلا رکھی ہے۔ ایک رہنما کا کہنا ہےکہ اگر تمام مسلمانوں کی گھر واپسی ہوجائے تو دہشت گردی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکتا ہے۔
اور آر ایس ایس کے سربراہ نے ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان یا عیسائی بننے والوں کو ’چوری کے مال‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا مال چوری ہوگیا تھا، چور پکڑا گیا، سب کو معلوم ہے کہ یہ ہمارا مال ہے، ہم اپنا مال واپس لے رہے ہیں، اس میں کیا بڑی بات ہے؟
واقعی اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہی ہے کہ جس کا مال ہے اسی کو ملنا چاہیے لیکن یہ سوال ضرور کچھ لوگوں کے ذہن میں اٹھتا ہوگا کہ آپ نے مال چوری ہونے ہی کیوں دیا، گھر سے جانے کی نوبت ہی کیوں آنے دی؟ اور اب چلے گئے ہیں تو کیوں بچھڑنے پر اتنے افسردہ ہیں؟ پھر بھی آپ کی محبتوں کے لیے شکریہ۔
یا پھر آپ کشمیر کی مثال لیجیے۔ وہاں بی جے پی سیاست میں فاروق عبداللہ اور مفتی محمد سعید کی خاندانی اجارہ داری ختم کرنے کے وعدے کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھی۔ اب انہیں خاندانوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ یہ ڈائری پڑھ رہے ہوں، کشمیر میں بی جے پی کی گھر واپسی ہو چکی ہو!
صدر اوباما نریندرمودی کی دعوت پر یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے دہلی آ رہے ہیں
بہرحال، آپ ان کی سیاست کو پسند کریں یا ناپسند، یہ نریند مودی کا سال رہا۔ آٹھ نو مہینے پہلے ان کے شاید دو ہی خواب تھے: وزیر اعظم بننا اور امریکہ جانا۔ وہ شاندار انداز میں وزیر اعظم بھی بنے اور اس سے زیادہ دھماکے دار انداز میں امریکہ بھی گئے، وہاں ان کے جلسوں میں اتنی بھیڑ آئی جیسے وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے ہوں۔
اور اب آپ مانیں یا نہ مانیں، خود صدر اوباما نریندرمودی کی دعوت پر یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے دہلی آ رہے ہیں! دس سال تک انہیں ویزا دینے سے انکار کرتے رہے اور اب ان کے بغیر رہنا بھاری پڑ رہا ہے۔
گھر واپسی صرف مذہب تبدیل کرنے والوں کی ہی نہیں ہوتی۔