دریائے جہلم میں طغیانی کے سبب گذشتہ سال سرینگر بھی زیرِ آب آ گیا تھا
بھارت کے زیر انتظام کشمیر ایک برس بعد بھی سیلاب زدہ آبادی کو سرکاری معاوضہ نہ دیے جانے کے خلاف کشمیر کے تمام اضلاع میں پیر کو ہڑتال کی جا رہی ہے۔
ہڑتال کی کال تاجروں نے دی تھی جس کی حمایت تمام علیحدگی پسند جماعتوں نے کی ہے۔ تاجر انجمنوں نے لال چوک کی شاہراہ پر ایک عوامی اجتماع کا اعلان کیا تھا لیکن حکومت نے تاجروں اور بعض علیحدگی پسندوں کو گرفتار کر لیا اور انھیں دھرنے کی اجازت نہیں دی۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس سات ستمبر کو دریائے جہلم کی سطح نے 100 سالہ ریکاڑ توڑ دیا تھا اور کشمیر کے بیشتر اضلاع طغیانی کی زد میں آ گئے تھے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پونے دو لاکھ گھر ناقابلِ رہائش بن گئے جس کے باعث 15 لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور جموں و کشمیر کے صوبوں میں 281 لوگ ہلاک ہو گئے۔
چونکہ سو سال میں پہلی مرتبہ دارالحکومت سرینگر بھی سیلاب کی زد میں آگیا اس لیے کاروباری ڈھانچہ بری طرح متاثر ہو گیا۔
عمرعبداللہ کی قیادت والی اُس وقت کی حکومت نے نقصان کا تخمینہ لگا کر حکومت ہند سے 44 کروڑ روپے کے مالی پیکیج کا مطالبہ کیا۔ اس دوران تاجروں نے ایک لاکھ کروڑ روپے کے نقصان کی بات کی تھی۔
گذشتہ سال کا سیلاب سو سال میں کشمیر میں آنے والا سب سے تباہ کن سیلاب تھا
لیکن پیکیج پر بات ہوہی رہی تھی کہ حکومت ہند نے نومبر میں انتخابات کا اعلان کر دیا۔
سرینگر کے بسنت باغ کے ایک متاثرہ باشندے غلام قادر وانی نے بتایا: ’ایک ہی جوڑا کپڑا تھا ہمارے پاس۔ برتن بھی پورے نہیں تھے۔ سب کچھ برباد ہو چکا تھا۔ لیکن بتایا گیا ووٹ ڈالو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم نے ووٹ ڈالا، لیکن ہمارے پاس کوئی نہیں آیا۔ حکومت کی طرف سے 3800 روپے کا چیک چھ ماہ بعد ملا۔ کیا اس سے میں نئی زندگی شروع کروں؟‘
انتخابات کے نتیجے میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت قائم ہو گئی۔ اس تاریخی سیلاب کی پہلی سالگرہ پر وزیراعلیٰ مفتی سعید نے کہا ہے: ’ایک بڑا پیکیج دہلی سے بہت جلد آ رہا ہے۔‘
اس سیلاب میں تقریباً 15 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے
لیکن ان وعدوں کا عوام اعتبار نہیں رہا۔ خاص طور پر حکومت ہند نے حالیہ دنوں جب اس قدر تباہ کن سیلاب کے ردعمل میں فقط 570 کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد 2437 کروڑ روپے کی نقد امداد کا اعلان کیا گیا لیکن ساتھ ہی کہا گیا کہ اس رقم کا بیشتر حصہ انڈین ایئر فورس اور انسداد بحران سے متعلق بھارت کے قومی ادارے این ڈی آر ایف کی اُن خدمات کا معاوضہ ہے جو انھوں نے لوگوں کو سیلاب سے نکالنے کے لیے انجام دیں۔
کشمیر میں تاجرانجمنوں کے اتحاد کے رہنما شیخ عاشق کہتے ہیں: ’ہم نے بھارت کے وزیرخزانہ ارون جیٹلی سے کئی ملاقاتیں کیں۔ وہ صرف یہی کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن یہ مقامی حکومت کی ناکامی ہے، جو اپنا حق بھی حکومت ہند سے طلب کرنے میں شرماتی ہے۔‘
سیلاب سے کشمیر کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا تھا
اس دوران ’سیلاب کی سالگرہ‘ کے موقعے پر کشمیر میں علیحدگی پسندوں، مذہبی تنظیمیوں، تاجر انجنموں اور رضاکار تنظیموں نے کئی تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔ ان تقریبات میں ’کشمیر کی غیرت‘ کو سراہا گیا ہے۔
اس سلسلے میں حکومت کا وہ اعتراف بھی قابل ذکر ہے جس کے مطابق ’اگر کشمیر کے نوجوان جان کی بازی لگا کر لوگوں کو نہ بچاتے تو ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی۔‘ ایسے نوجوانوں کو اعزازات سے نوازا گیا ہے۔
لیکن تاجروں اور علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ ’آج کی ہڑتال دنیا کو یہ بتانے کے لیے کی گئی ہے کہ حکومت ہند کشمیر کو ایک نوآبادی سمجھتی ہے اور 100 سال میں آنے والے اس قدر بھیانک سیلاب کے باوجود لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔‘