سری نگر: وادی کشمیر میں موبائیل فون سروس کو ایک بار پھر معطل کردیا گیا ہے جبکہ موبائیل انٹرنیٹ خدمات 8 اور 9 جولائی سے بدستور معطل ہے ۔ وادی میں اس سے قبل 14 جولائی کو موبائیل فون سروس معطل کی گئی تھی۔تاہم انسانی حقوق کی قومی و بین الاقوامی تنظیموں بالخصوص ایمنسٹی انٹرنیشنل اور مختلف سیاسی جماعتوں کے دباؤ اور وادی سے باہر مقیم کشمیری طلبہ اور تاجروں کے بار بار اصرار کے بعد 26 اور 27 جولائی کی درمیانی رات کو تمام نجی مواصلاتی کمپنیوں کی پوسٹ پیڈ فون خدمات کو بحال کردیا گیا تھا۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پری پیڈ سم کارڈ کی انکمنگ کال سروس بحال کردی گئی تھی۔ سرکاری مواصلاتی کمپنی بی ایس این ایل کی پوسٹ پیڈ موبائیل خدمات کو ایک بار پھر معطلی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔
وادی کے پری پیڈ صارفین نے بتایا کہ اگرچہ اُن کے سم کارڈوں کی آوٹ گوئنگ کال سہولیت پہلے سے ہی معطل تھی، لیکن جمعرات کو رات دیر گئے انکمنگ کال سہولیت کو ایک بار پھر معطل کردیا گیا۔ نجی مواصلاتی کمپنیوں کی پوسٹ پیڈ اور پری پیڈ موبائیل فون سروس کو ایک بار پھر معطل کئے جانے پروادی سے باہر مقیم کشمیریوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے ۔ حیدرآباد کی ایک مرکزی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر راجا بلال نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ‘کشمیر میں موبائیل فون سگنل ایک بار پھر غائب۔ جس شخص کے ساتھ آپ بات کرنا چاہتے ہیں اُس کا موبائیل فون پہنچ سے باہر ہے ۔
بشکریہ ریاستی حکومت’۔ وادی سے باہر مقیم ایک کشمیری صحافی جنیدر راتھر نے اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا ‘اس طرح کی کاروائیوں سے مایوسی اور لاچاری پیدا ہوتی ہے ، جو بعد ازاں انتہائی پسندی کا راستہ اختیار کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ میں دعا اور امید کرتا ہوں کہ کشمیر میں سب محفوظ ہوں گے ‘۔
جاوید پارسا نامی ایک نوجوان کشمیری تاجر نے لکھا ‘ہندوستان کی یوم آزادی سے چند روز قبل ہی کشمیر میں موبائیل فون خدمات کو ایک بار پھر معطل کردیا گیا۔ مسٹر مودی کے پتھروں کے بجائے لیپ ٹاپ مشن کے بعد یہ اقدام ایک بڑا جھٹکا ہے ۔ ایک طرف آپ ہمیں لیپ ٹاپ ہاتھوں میں لینے کی بات کہہ رہے ہو، تو دوسری جانب مواصلاتی نظام ٹھپ کرکے ہمیں بیرون دنیا سے کاٹ رہے ہو۔ اس کے باوجود آپ اپنا یوم آزادی منائیں گے اور ہمیں ترسیل کی آزادی سے محروم رہیں گے ‘۔ موبائیل فون خدمات کو ظاہری طور پر جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہروں اور یوم آزادی کی تقریبات کے پیش نظر معطل کردیا گیا ہے ۔
وادی کے تمام حصوں میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھرپ میں ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی پرتشدد احتجاجی لہر کے پیش نظر 8 اور 9 جولائی کی درمیانی رات کو معطل کردی گئی تھی جبکہ جنوبی کشمیر کے چار اضلاع میں موبائیل انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ فون سروس کو بھی معطل کردیا گیا تھا ۔
موبائیل انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کے 6 روز بعد 14 جولائی کو رات کے قریب آٹھ بجے وادی بھر میں موبائیل فون سروس بھی معطل کی گئی تھی۔تاہم سرکاری مواصلاتی کمپنی بی ایس این ایل کے پوسٹ پیڈ کنکشنوں کو پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ قریب دو ہفتے تک معطل رکھنے کے ریاستی حکومت نے انسانی حقوق کی قومی و بین الاقوامی تنظیموں بالخصوص ایمنسٹی انٹرنیشنل اور مختلف سیاسی جماعتوں کے دباؤ اور وادی سے باہر مقیم کشمیری طلبہ اور تاجروں کے بار بار اصرار کے بعد 26 اور 27 جولائی کی درمیانی رات کو تمام نجی مواصلاتی کمپنیوں کی پوسٹ پیڈ فون خدمات کو بحال کردیا تھا۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پری پیڈ سم کارڈ کی انکمنگ کال سروس بحال کردی گئی تھی۔
وادی میں 14 جولائی کو موبائیل فون سروس کی معطلی کے ساتھ ہی بی ایس این ایل پوسٹ پیڈ سم کارڈوں کی بلیک مارکیٹ میں دوگنی قیمتوں پر فروخت کا سلسلہ شروع ہوا تھا ، جو مبینہ طور پر تاحال جاری ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بلیک مارکیٹ کا یہ کاروبار بی ایس این ایل کے اعلیٰ افسران کی ناک تلے کیا جارہا ہے ۔ اگرچہ بی ایس این ایل وادی میں مواصلاتی خدمات شروع کرنے والی پہلی کمپنی ہے ، تاہم غیر تسلی بخش فون و انٹرنیٹ خدمات کی فراہمی کی وجہ سے اس کے صارفین کی تعداد بہت کم ہے ، جن میں سے زیادہ تر سرکاری اہلکار (ملازم) ہیں۔ وادی میں عام شہریوں کا الزام ہے کہ بی ایس این ایل کو ہر بار پابندی سے مستثنیٰ رکھنے کا مقصد موبائیل صارفین کو اس سرکاری کمپنی کی طرف مائل کرنا ہے جس کے صارفین کے تعداد ہر گذرتے دن کے ساتھ گھٹتی ہی جارہی ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ بی ایس این ایل اس وقت عام شہریوں کو سم کارڈ فراہم نہیں کررہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ صرف سرکاری اور لازمی خدمات سے وابستہ ملازمین کو ہی پوسٹ پیڈ سم کارڈ فراہم کئے جارہے ہیں۔ بی ایس این ایل پوسٹ پیڈ سم کارڈ حاصل کرنے کے خواہشمند لوگوں کے ایک گروپ نے بتایا کہ اگرچہ ایک پوسٹ پیڈ سم کارڈ کی اصل قیمت پانچ سو روپے ہے جو ایک صارف کو بطور سیکورٹی ڈیپازٹ ادا کرنا ہوتا ہے ، لیکن اب صارفین کو یہی سم کارڈ بروکرز سے ایک ہزار سے دو ہزار روپے میں خریدنے لینے پڑتے ہیں۔
دوسری جانب نجی مواصلاتی کمپنیوں نے پری پیڈ فون سروس پر عائد پابندی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مجبور لوگوں کو پوسٹ پیڈ سم کارڈوں کی فراہمی کے نام پر لوٹنا شروع کردیا ہے ۔نجی مواصلاتی کمپنیوں بھارتیہ ائرٹیل، ائرسیل اور ریلائنس نے مجبور صارفین سے پوسٹ پیڈ سم کارڈوں کی فراہمی کے عوض بھاری رقوم بطور ایڈوانس لینا شروع کردیا ہے ۔ لوگوں نے الزام عائد کیا کہ ائرٹیل پوسٹ پیڈ سم کارڈ جو دو ماہ قبل ایک صارف کو محض 350 روپے ایڈوانس کے عوض فراہم کی جاتی تھی، وہی سم کارڈ اب مزید مہینوں کے ایڈوانس کے نام پر 1250 روپے میں فراہم کی جاتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک طرف بی ایس این ایل اپنے پوسٹ پیڈ سم کارڈ صرف سرکاری ملازمین کو فراہم کررہا ہے ، وہیں دوسری طرف بلیک مارکیٹ میں یہی سم کارڈ عام اور مجبور شہریوں کو بلیک مارکیٹ میں 1500 سے دو ہزار روپے میں فراہم کئے جارہے ہیں۔دریں اثنا پری پیڈ فون اور انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کے باعث صارفین خاص طور پر طلباء، سیاحوں ، پیشہ ور افراد خاص طور پر صحافیوں اورتاجروں کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پری پیڈ فون اور انٹرنیٹ خدمات کو معطل رکھنے کا اقدام کسی بھی طرح کی افواہوں کو روکنے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ صورتحال میں بہتری آنے کے ساتھ ہی پری پیڈ موبائیل فون اور انٹرنیٹ خدمات کو بھی بحال کردیا جائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ وادی میں انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کو ای (الیکٹرانک) کرفیو کا نام دیا گیا ہے ۔ وادی میں سال 2008 میں امرناتھ زمین تنازعہ اور سال 2010 کی احتجاجی لہر جو کئی مہینوں تک جاری رہی تھی کے دوران موبائیل انٹرنیٹ خدمات اور ایس ایم ایس سروس معطل کردی گئی تھیں۔تاہم وادی میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقعوں پر موبائیل اور انٹرنیٹ خدمات کا معطل رکھا جانا معمول ہے ۔ کشمیر کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ وادی میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات کو ظاہری طور پر کسی بھی طرح کے افواہوں کو پھیلنے ، ملک مخالف احتجاجی مظاہروں سے متعلق خبروں اور ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر عام کرنے اور کسی بھی طرح کے احتجاجی پروگرام کی تشہیر کو روکنے کے لئے معطل رکھا جاتا ہے ۔