سری نگر: وادی کشمیر میں جہاں ہزاروں افراد کی گرفتاری کے بعد سڑکوں پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی شدت میں غیرمعمولی کمی آئی ہے ، وہاں پیر کو علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پر ہڑتال کے باعث معمولات زندگی مسلسل 108 ویں روز بھی مفلوج رہی۔
اگرچہ سڑکوں پر چلنے والی نجی گاڑیوں کی تعداد میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ درج کیا جارہا ہے ، وہیں پبلک ٹرانسپورٹ کی آوجاہی گذشتہ 108 دنوں سے معطل پڑی ہے ۔ وادی کی سڑکوں پر سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی اضافی نفری بدستور تعینات رکھی گئی ہے ۔
یو این آئی کے ایک نامہ نگار نے بیسوں چھوٹی مسافر گاڑیوں کو ڈلگیٹ اور جنوبی کشمیر کے اننت ناگ اور دیگر قصبوں کے درمیان چلتے ہوئے دیکھا۔ تاہم ڈرائیوروں کے مطابق پلوامہ اور ترال کے لئے چھوٹی گاڑیوں کی سروس بدستور معطل ہے ۔ وادی میں دکانیں اور تجارتی مراکز آج مسلسل 108 ویں روز بھی بند رہے جبکہ سرکاری دفاتر، بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں میں معمول کا کام کاج بدستور متاثر پڑا ہوا ہے ۔ وادی کے تقریباً سبھی تعلیمی ادارے گذشتہ چار ماہ سے بند پڑے ہوئے ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ وادی کے کسی بھی حصے میں پیر کو کرفیو یا پابندیاں نافذ نہیں رہیں، تاہم امن وامان کی فضا کو بنائے رکھنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات رکھی گئی ہے ۔ پولیس دعوے کے برخلاف گرمائی دارالحکومت سری نگر کے مضافاتی علاقہ اور جنوبی ضلع شوپیان کے کاپرن میں لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے کے لئے تمام سڑکوں کو خاردار تار سے بند رکھا گیا ہے ۔
حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان سید علی گیلانی و میرواعظ مولوی عمر فاروق اور جے کے ایل ایف چیئرمین محمد یاسین ملک جو آرپار جموں وکشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دینے کا مطالبہ کررہے ہیں، نے ہڑتال میں پہلے ہی 27 اکبوتر تک توسیع کا اعلان کر رکھا ہے ۔ خیال رہے کہ یہ تینوں علیحدگی پسند رہنما 8 جولائی کے واقعہ کے بعد سے ہفتہ واری احتجاجی کلینڈر جاری کررہے ہیں۔ علیحدگی پسند قیادت نے آج کشمیر عوام کو اپنے متعلقہ علاقوں میں ‘آزادی مارچوں’ کا انعقاد کرنے کے لئے کہا تھا۔
سری نگر میں لوگوں کو سری نگر کے مضافاتی علاقہ ہارون تک مارچ نکالنے کے لئے کہا گیا تھا۔ سیکورٹی فورسز نے ہارون تک مارچ کو ناکام بنانے کے لئے اس کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تار سے سیل رکھا تھا۔ ہارون کے علاوہ اس کے ملحقہ علاقوں شالیمار اور نشاط میں سیکورٹی فورسز تعینات کئے گئے تھے ۔
شالیمار کے ایک رہائشی معراج الدین نے یو این آئی کو فون پر بتایا کہ سیکورٹی فورسز نے ایک بلٹ پروف گاڑی کو مین چوک میں کھڑا رکھا ہے اور کسی کو بھی ہارون کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ ادھر سیول لائنز کے علاقوں بشمول تاریخی لال چوک، بڈشاہ چوک، ریذیڈنسی روڑ ، مولانا آزاد روڑ، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ، مہاراجہ بازار، گونی کھن ، بتہ مالو اور مائسمہ میں اگرچہ تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے ، تاہم سڑکوں پر پھل ، سبزیاں اور گرم ملبوسات فروخت کرنے والے درجنوں چھاپڑی فروش نظر آیے ۔
وادی کی سڑکوں پر اگرچہ اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپویشن کی گاڑیوں کی آمدورفت بھی 9 جولائی سے معطل ہے ، تاہم نجی گاڑیوں کی آمدورفت میں ہر گذرتے دن کے ساتھ بہتری نظر آرہی ہے ۔ پائین شہر میں واقع تاریخی جامع مسجد جہاں گذشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران مصلیوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، کے باب الداخلے بدستور مقفل رکھے گئے ہیں۔ اس تاریخی جامع مسجد میں مصلیوں کو داخل ہونے سے روکنے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اہلکار اس کے باب الداخلوں پر تعینات رکھے گئے ہیں۔ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں کشیدگی پیدا ہونے کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے یہاں بلائی گئی فورسز کو بدستور یہیں تعینات رکھا گیا ہے ۔
بارہمولہ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے اس اور دیگر قصبہ جات و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں معمول کی زندگی آج بھی متاثر رہی۔ پورے شمالی کشمیر میں تجارتی و دیگر سرگرمیاں بدستور معطل ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آواجاہی معطل ہے ۔ پرانے قصبے کو سیول لائنز کے ساتھ جوڑنے والے پلوں پر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری بدستور تعینات رکھی گئی ہے ۔ ایسی ہی صورتحال وسطی کشمیر کے بڈگام و گاندربل اضلاع میں نظر آئی جہاں تجارتی اور دیگر سرگرمیاں بدستور ٹھپ ہیں۔
اننت ناگ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر کے اس اور دیگر قصبہ جات و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں آج مسلسل 108 ویں دن بھی مکمل ہڑتال رہی۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر میں تجارتی سرگرمیاں بدستور ٹھپ ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل ہے ۔
وادی میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات کو بدستور معطل رکھا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ سری نگر سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ‘کشمیر ریڈر’ کی اشاعت پر پابندی بھی جاری رکھی گئی ہے ۔