سری نگر:وادی کشمیر میں ہفتہ کو 133 دنوں بعد کوئی ہڑتال نہیں رہی جس کے باعث نہ صرف معمولات زندگی بحال ہوئے بلکہ وادی کے تمام بازاروں بالخصوص سری نگر کے سیول لائنز میں عرفہ جیسا سماں نظر آیا۔وادی میں اتوار کو بھی کوئی ہڑتال نہیں ہوگی۔ 133 دنوں بعد ہڑتال میں دو روزہ ڈھیل کا اعلان علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے جاری کردہ اپنے تازہ ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر میں کیا تھا۔ وادی میں گزشتہ 133 دنوں میں پہلی مرتبہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ نمودار ہوااور سری نگر کے سیول لائنز میں ٹریفک جام کے بدترین مناظر دیکھنے کو ملے ۔
وادی 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی اور اُن کے دو دیگر ساتھیوں کی جنوبی کشمیر کے ایک گاؤں میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاکت کے بعد ابل پڑی تھی۔برہان وانی کی ہلاکت کے خلاف وادی کے اطراف واکناف میں بھڑک اٹھنے والے شدید پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد سخت ترین کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا جس کو مختلف علاقوں میں 55 دنوں تک جاری رکھا گیا تھا۔کشمیری عوام کے لئے حق خودارادیت کا مطالبہ کررہے حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان مسٹر گیلانی و میرواعظ اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین یاسین ملک نے برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر جاری کرنے کا سلسلہ جاری کیا تھا، جس کو اجراء کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری قوم نے گزشتہ ساڑھے چار ماہ کے دوران ایک اخلاقی فتح حاصل کی ہے ۔
وادی میں گزشتہ 133 دنوں کے دوران سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں کم از کم 95 عام شہری ہلاک جبکہ 15 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ زخمیوں میں سینکڑوں افراد بالخصوص نوجوان ایسے ہیں جو چھرے لگنے سے اپنی ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔وادی میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد موبائیل فون اور انٹرنیٹ خدمات بھی کردی گئی گئی تھیں۔ جہاں موبائیل فون سروس گذشتہ مہینوں کے دوران بحال کی گئی تھی، وہیں انٹرنیٹ خدمات گزشتہ شام بحال کی گئیں۔ وادی میں ٹرین سروس کو بھی جزوی طور پر بحال کردیا گیا ہے ۔ تاہم ریلوے ذرائع کے مطابق شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان ریل سروس کو بحال ہونے میں ابھی کم از کم دس دن لگ سکتے ہیں۔ دوسری جانب پائین شہر میں واقع تاریخی جامع مسجد کے اردگرد گزشتہ ساڑھے چاہ ماہ سے جاری محاصرہ ہٹالیا گیا جس کے بعد جامع مارکیٹ میں دکانیں اور تجارتی مراکز کھل گئے ۔اس تاریخی جامع مسجد میں گذشتہ 19 ہفتوں کے دوران ایک بھی دفعہ نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مورخین کے مطابق 1842 ء کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جب کسی حکومت نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد کو مسلسل چار ماہ تک مقفل رکھا۔ 19 ویں صدی میں اس تاریخی مسجد کو سکھ حکمرانوں نے 1819 ء سے 1842 ء تک مسلسل 23 برسوں تک بند رکھا تھا۔سول سکریٹریٹ کے نذدیک واقع بتہ مالو جہاں سینکڑوں کی تعداد میں بڑی مسافر گاڑیاں (بسیں) 9 جولائی سے کھڑی ہوئی تھیں، میں آج صبح خاصی چہل پہل نظر آئی ۔ بتہ مالو بس اسٹینڈ میں ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کو اپنی گاڑیاں صاف کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ بس اسٹینڈ کے اردگرد سینکڑوں کی تعداد میں افراد نے اپنے اسٹال لگائے تھے جو مختلف اشیاء خاص طور پر گرم ملبوسات اور پھل فروخت کررہے تھے ۔وادی کے مختلف علاقوں میں دسویں اور بارہویں جماعت کے طلباء کو اپنے امتحانی مراکز کی طرف چلتے ہوئے دیکھا گیا۔ تاہم حکومت کی جانب سے چھٹی سے نویں اور گیارہویں جماعتوں کے طلباء کے لئے ماس پروموشن (امتحانات میں بیٹھے بغیر اگلی جماعت میں ترقی) دینے کے اعلان کی وجہ سے طلباء اسکولوں سے دور ہی نظر آیے ۔ وادی میں سبھی تعلیمی ادارے برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بند ہیں۔وادی کے دوسرے حصوں سے بھی معمولات زندگی بحال ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ بارہمولہ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے اس اور دیگر ضلعی و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں ہفتہ کی صبح دکانیں اور تجارتی مراکز کھل گئے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت بحال ہوئی۔ تاہم امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی اضافی نفری بدستور تعینات رکھی گئی ہے ۔ جنوبی کشمیر کے چار اضلاع اننت ناگ، پلوامہ، شوپیان اور کولگام کے علاوہ وسطی کشمیر کے دو اضلاع بڈگام اور گاندربل سے بھی معمولات زندگی بحال ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔