اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ نے کشمیر کی حالیہ صورتحال پر سوال اٹھائے ہیں
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر زید رعد الحسین نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی حالیہ ہلاکتوں کی بین الاقوامی جانچ کو ضروری قرار دیا ہے۔
انھوں نے متنازع ریاست کشمیر میں اقوام متحدہ کی رسائی کی درخواست پر ہندوستان کی خاموشی پر تاسف کا بھی اظہار کیا ہے۔
٭ کشمیر: ’تصادم میں ایک پولیس اہلکار تین شدت پسند ہلاک‘
انھوں نےانڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی روز بروز بگڑتی صورتحال کے پیش نظر وہاں آزاد، منصفانہ اور بین الاقوامی مشن قائم کرنے پر زور دیا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 33 ویں اجلاس کے افتتاحی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے انھیں نو ستمبر کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں آنے کی دعوت دی گئی جو کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دورے سے مشروط تھی۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا سے ابھی تک انھیں کوئی باضابطہ خط موصول نہیں ہوا ہے۔
کشمیر میں حالات دو ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے کشیدہ ہیں
زید رعد الحسین نے کہا: ’ہمیں کشمیر سے پہلے اطلاعات ملی تھیں اور اب بھی موصول ہو رہی ہیں کہ انڈین حکام کی جانب سے اپنے زیر انتظام شہریوں کے خلاف قوت کا شدید استعمال کیا گيا ہے۔‘
انھوں نے تقریر کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’تصادم کے بارے میں ہمیں دونوں جانب سے باہم متضاد بیانیے موصول ہوئے ہیں جس میں کثیر تعداد میں لوگوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔‘
انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا: ’میرے خیال میں ایک آزاد، غیرجانبدار اور بین الاقوامی مشن کی وہاں سخت ضرورت ہے اور اسے دونوں جانب سے کیے جانے والے دعوؤں کی سچائی جاننے کے لیے آزاد اور مکمل رسائی دی جائے۔‘
ہندوستان ایک عرصے سے کشمیر کے مسئلے پر کسی تیسری پارٹی کی ثالثی سے انکار کرتا رہا ہے۔
عید کے موقعے پر بھی وادی میں پوری طرح کرفیو نافذ رہا
انڈیا کا ردعمل: ’دونوں جانب کشمیر مختلف ہے‘
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے کہا اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ کے بیان میں ہمارا جواب یہ ہے کہ دہشت گردی انسانی حقوق کے سب سے بڑی خلاف ورزی ہے۔
دونوں جانب کے کشمیر میں بہت فرق ہے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جمہوری طور پر منتخب حکومت ہے تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں من مانے طور پر سربراہ تعینات کیا گيا ہے۔
انڈین وزرات خارجہ
پانچ نکات پر منبی اپنے جواب میں وزرات خارجہ نے کہا ’حالیہ صورت حال دہشت گرد تنظیم حزب المجاہدین کے خودساختہ کمانڈر کی ہلاکت سے پیدا ہوئی ہے جو کہ دہشت گردی کے کئی واقعات میں مطلوب تھا، اور اس میں پاکستان سے ابھرنے والی مستقل سرحد پار دہشت گردی سے مزید شدت آئی۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دہشت گردی انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزی ہے اور اس لیے کسی بھی غیرجانبدار مبصر کو اسے قبول کرنا چاہیے۔‘
دونوں جانب کے کشمیر میں مشن کے دورے کے جواب میں یہ کہا گيا ہے کہ ’دونوں جانب کے کشمیر میں بہت فرق ہے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جمہوری طور پر منتخب حکومت ہے تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں من مانے طور پر سربراہ تعینات کیا گيا ہے۔‘
اس میں مزید کہا گيا ہے کہ ’پاکستان کا زیرِ انتظام کشمیر عالمی سطح پر دہشت گردی برآمد کرنے کا مرکز بن گیا ہے۔‘
بیرونی مشن کے دورے کے بارے میں بیان میں کہا گيا ہے کہ اس پر آل پارٹی کانفرنس میں 12 ستمبر کو بات کی گئی اور اتفاق رائے سے یہ محسوس کیا گیا کہ جائز شکایات سے نمٹنے کے لیے ہندوستانی جمہوریت کے پاس سب کچھ ہے اور ایک کل جماعتی وفد نے سرینگر کا دورہ کیا۔
مظاہرین اور انڈین فورسز کے درمیان تصادم کی خبریں مستقل آ رہی ہیں
خیال رہے کہ آٹھ جولائی کو مشتبہ کشمیری شدت پسند برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں موت کے بعد سے کشمیر وادی میں صورتحال کشیدہ ہے۔
تقریباً دو ماہ سے جاری تشدد کی لہر رکنے کے نام نہیں لے رہی ہے اور وادی میں کئی مقامات پر ابھی بھی کرفیو جاری ہے اور مظاہرے بھی ہو رہے ہیں جبکہ بقر عید بھی کرفیو کے درمیان گزر رہی ہے۔
سنیچر کو شوپیاں اور اننت ناگ اضلاع میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں دو مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے۔
اتوار اور پیر کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں گذشتہ 65 دنوں میں اب تک 80 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً دس ہزار شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔
پولیس کے مطابق ساڑھے پانچ ہزار پولیس اور سکیورٹی اہلکار بھی مظاہروں کے دوران زخمی ہوئے ہیں۔
Courtesy bbcurdu.com