سری نگر:کشمیر انتظامیہ نے آج ‘نماز جمعہ کی ادائیگی’ کے بعد احتجاجی مظاہروں کے خدشے کے پیش نظر دارالحکومت سری نگر اور وادی کے تقریباً تمام ضلع ہیڈکوارٹروں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کردیں۔
پابندیوں کے باعث سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں مسلسل نویں مرتبہ نماز جمعہ ادا نہ کی جاسکی۔ اس کے علاوہ سری نگر کی متعدد دیگر مساجد میں بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تاہم پابندیوں کے باوجود وادی میں جمعہ کو درجنوں مقامات پر احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں کم از کم 50 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اگرچہ انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ وادی کے کسی بھی حصے میں جمعہ کو کرفیو نافذ نہیں رہا، تاہم وادی کے مختلف علاقوں بالخصوص سری نگر کے پائین شہراور جنوبی کشمیر کے کچھ حصوں کی زمینی صورتحال بالکل مختلف تھی۔ جہاں پائین شہر میں تعینات سیکورٹی فورس اور ریاستی پولیس کے اہلکار گاڑیوں کی آمدورفت اور راہگیروں کی نقل وحرکت کی اجازت نہیں دے رہے تھے ، وہیں مختلف اضلاع کو سری نگر کے ساتھ جوڑنے والی تقریباً تمام سڑکوں کو خاردار تار سے سیل رکھا گیا تھا۔
سیول لائنز میں سب سے زیادہ حساس علاقہ مانے جانے والے ‘مائسمہ’ جو جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کا گڑھ مانا جاتا ہے ، میں جمعہ کی علی الصبح کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا جارہا تھا۔
مائسمہ بشمول بڈشاہ چوک، حاجی مسجد، ریڈکراس روڑ، گاؤ کدل اور مدینہ چوک کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو ایک بار پھر خاردار تار سے سیل کردیا گیا ہے ۔ ایسی پابندیاں دریائے جہلم کے کنارے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے ۔
شہر کے قلب تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بھی ایک بار سیل کردیا گیا ہے ۔ امیرا کدل برج جو ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ کو تاریخی لال چوک سے جوڑتا ہے ، کو بھی خاردار تار سے بند کردیا گیا ہے ۔ تاہم مولانا آزاد روڑ کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سری نگر کے علاوہ جنوبی کشمیر کے شوپیان، کولگام، پانپور اور ترال اور شمالی کشمیر کے پٹن اور پل ہالن میں پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔
قصبہ اننت ناگ کے ایک رہائشی نے یو این آئی کو فون پر بتایا ‘قصبے میں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ وہ لوگوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کو کہہ رہے تھے ‘۔
ایسی ہی رپورٹیں جنوبی کشمیر کے دوسرے بڑے قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں سے بھی موصول ہوئیں۔ پابندیوں کے باعث سری نگر کی تاریخی جامع مسجد اور متعدد دیگر مساجد میں مسلسل نویں مرتبہ نماز جمعہ ادا نہ کی جاسکی۔ اگرچہ شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع درگاہ حضرت بل میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی، تاہم وہاں نماز ادا کرنے والے لوگوں کی تعداد عام دنوں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔
پائین شہر کے نوہٹہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ آج سیکورٹی فورسز کے اضافی اہلکار تاریخی جامع مسجد کے باہر تعینات کردیے گئے اور آج صبح سے ہی کسی بھی شخص کو مسجد کے احاطے کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ مسجد کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کردیا گیا ہے ۔ مسجد کے موذن کو بھی اذان دینے کے لئے مسجد کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
سری نگر کی اس تاریخی و مرکزی جامع مسجد میں ہر جمعہ کو ہزاروں کی تعداد میں لوگ وادی کے مختلف علاقوں سے آکر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔ تاریخی جامع مسجد کی طرح سری نگر کے پائین شہر کی متعدد دیگر مساجد میں بھی نماز جمعہ ادا نہ ہوسکی۔ تاریخی جامع مسجد میں حریت کانفرنس (ع) کے چیرمین میرواعظ نماز جمعہ کا خطبہ پڑھتے ہیں۔
تاہم انتظامیہ نے انہیں چشمہ شاہی ہٹ نما جیل میں نظربند رکھا ہے ۔ علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک جنہوں نے وادی میں جاری ہڑتال میں 15 ستمبر تک توسیع کا اعلان کر رکھا ہے ، نے آج لوگوں کو اپنے متعلقہ ضلع ہیڈکوارٹروں تک ‘آزادی مارچ’ نکالنے کے لئے کہا تھا۔
تاہم کسی بھی احتجاجی مظاہرے یا کسی بھی ‘آزادی حامی’ جلسے ، مارچ یا ریلی میں شرکت سے روکنے کے لئے تمام علیحدگی پسند رہنماؤں کو یا یا تو اپنے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے ، یا انہیں پولیس تھانوں میں مقید رکھا گیا ہے ۔
دریں اثنا وادی میں معمولات زندگی جمعہ کو مسلسل 63 ویں روز بھی مفلوج رہے ۔ وادی کے اطراف واکناف میں آج بھی دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے ۔ سرکاری دفاتر، بینکوں اور پبلک سیکٹر اداروں میں معمول کا کام کاج بدستور ٹھپ پڑا ہے ۔ وادی کی تمام سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آواجاہی بدستور معطل ہے جبکہ تعلیمی ادارے یکم جولائی سے بند پڑے ہیں۔
وادی میں ہڑتال، کرفیو اور سخت ترین بندشوں کا سلسلہ حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی 8 جولائی کو جنوبی کشمیر کے ککر ناگ میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاکت کے بعد سے جاری ہے ۔
اس دوران احتجاجی مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 75 عام شہری مارے گئے جبکہ 9 ہزار زخمی ہوئے ہیں۔
احتجاجی مظاہروں کے دوران دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ ریاستی پولیس اور سیکورٹی فورسز کے 4500 دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔