نئی دہلی: سری لنکا میں 22 سال بعد ملی ٹسٹ سیریز کی فتح کے بعد ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے نئے جارحانہ انداز کو لے کر سابق اور موجودہ کرکٹر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ٹیم انڈیا نے نوجوان ٹسٹ کپتان وراٹ کوہلی کی قیادت میں جس جارحانہ انداز میں سری لنکا میں ٹسٹ سیریز جیت حاصل کی اس پر کرکٹ کی دنیا فدا تو ہے لیکن کپتان کا جارحانہ انداز اور اس کے ساتھی کھلاڑیوں پر پڑ رہے اثرات نے ہندوستانی کرکٹ میں نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا ایساجارحانہ انداز ٹیم انڈیا کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ٹیم انڈیا میں جارحانہ انداز پہلی بار استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے سابق کپتان سوربھ گنگولی تھے جنہوں نے اپنے مختلف انداز میں ٹیم انڈیا کو جارحانہ بنایا تھا اور اس میںجیتنے کی خصوصیات بھری۔ یہ بات الگ ہے کہ ملک کے سب سے زیادہ کامیاب کپتان مہندر سنگھ دھونی کا وقت بالکل مختلف تھا اور کیپٹن کول کے نام سے مشہور دھونی کے وقت ٹیم کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اتنی جارحانہ نہیں دکھائی دیتی تھی جتنی وراٹ کے وقت میں دکھائی دے رہی ہے۔جارحیت کو لے کر سابق اور موجودہ کھلاڑیوں کے سر مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔
جہاں ایک طرف سابق کپتان بشن سنگھ بیدی اور سنجے منجریکر جارحیت پر سوال اٹھا رہے ہیں تو وہیں ٹسٹ کپتان وراٹ اس سے مکمل طور لاپرواہ ہیں۔ ٹیم کے اسٹار آف اسپنر روی چندرن اشون بھی جارحیت کی حمایت کر رہے ہیں۔ ٹیم انڈیا کو سابق فاسٹ بولر شرما کی بھی حمایت حاصل ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ ٹیم کی جیت کیلئے ایک نہیں چار میچوں کی پابندی بھی سامنا کیلئے تیار ہیں۔ٹسٹ کپتان وراٹ کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے کہ ان کی جارحیت کو لے کر تنقید ہو رہی ہے اور تیز گیند باز ایشانت شرما کی آخری ٹسٹ میں جارحیت کو لے کر انہیں ہی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ وراٹ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ان سوالات کو ٹال دیا اور صرف اتنا کہا میں اس سوال کا جواب نہیں دے رہا ہوں۔ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے اور نہ ہی آخری بار ہوا ہے۔سابق ہندوستانی فاسٹ بولر اور اب مشہور تجزیہ کار نے ایشانت کے دفاع میں اترتے ہوئے کہا سری لنکا میں آپ کو22 سال سیریز جیت کیلئے انتظار کرنا پڑا۔
غیر ملکی زمین پر آپ کو چار سال بعد جاکر کوئی سیریز جیت نصیب ہوئی اور ایسی تاریخی جیت دلانے میں جس بولر نے اپنا کردار ادا کیا اس کی جارحیت پر سوال اٹھانا قطعی جائز نہیں ہے۔سابق فاسٹ بولر نے کہا کوئی مجھے بتائے کہ اگر فاسٹ بولر وکٹ لینے کے بعد اپنی جارحیت کا مظاہرہ نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔ جب پہلے بیرون ملک میںسیریز نہیں جیت پاتے تھے تو بولنگ پر سوال اٹھائے جاتے تھے اور اب سیریز جیت لی ہے تو بھی بولنگ پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ میں ایشانت کی جارحیت کا مکمل طور پر حمایت کرتا ہوں۔ آخر انہوں نے فیصلہ کن ٹسٹ میں پوری جان لگا کر گیند بازی کی اور آٹھ وکٹ لے کر ہندوستان کو میچ اور سیریزمیں فاتح بنایا۔سابق ہندوستانی کرکٹر اور ٹی وی مبصر سنجے منجریکر کو وراٹ اور ٹیم ڈائریکٹر روی شاستری کی جارحیت فکرکاسببلگتی ہے۔ منجریکر نے نوجوان قیادت پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ جارحانہ کرکٹ کا نیا دور ہے جس سے کچھ حد تک ہندوستانی ٹیم کو نقصان ہوا ہے کیونکہ ایشانت جارحیت دکھانے کی وجہ سے ایک میچ کی پابندی جھیل رہے ہیں اور جنوبی افریقہ کے خلاف موہالی میں پہلے گھریلو ٹسٹ میں نہیں کھیل پائیں گے۔
منجریکر نے کہا شاید یہ ان کے نئے دور کا جارحانہ کرکٹ ہے اور اگر ایسا ہے تو اس کرکٹ روح کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ اس جارحانہ کرکٹ سے ہندوستان کو نقصان ہوا اور انہوں نے اپنے بہترین فاسٹ بولر ایشانت کو ایک میچ کیلئے کھو دیا جو اس وقت اپنے فارم میں چل رہے ہیں۔سری لنکا میں مین آف دی سیریز رہے اشون نے وراٹ اور ایشانت کے دفاع میں اترتے ہوئے کہا کہ وراٹ ہمیشہ اپنی ٹیم کے ساتھیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اشون نے کہامجھے لگتا ہے کہ وہ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ جس کی بھی حمایت کرتے ہیں، اس کی پوری مدد بھی کرتے ہیں کہ وہ رکاوٹوں کو پار کر سکے۔ایشانت کے جارحانہ رویہ پر انہوں نے کہامجھے لگتا ہے کہ ہر کوئی وہ بننا چاہتا ہے جو وہ اصل میں ہے۔ جو کرکٹ کھیل رہا ہے، وہ جارحانہ بننا چاہتا ہے۔کچھ لوگ جارحانہ ہوتے ہیں اور کچھ بہت زیادہ غصے والے رویے کے ہوتے ہیں لیکن جو کچھ بھی زندگی میں ہوتا ہے، اس سے ایک سبق ملتا ہے۔ ایشانت کا رویہ جارحانہ تھا اور انہوں نے ہمارے لئے ٹسٹ میچ جیت لیا۔ٹیم انڈیا کی جارحیت کو لے کر چل رہی بحث جنوبی افریقہ اکتوبر میں ہندوستان کا دورہ شروع ہونے تک جاری رہے گی اور اس کے بعد دورے کے دوران مسلسل تیز ہوتی چلی جائے گی۔
یہ اس بات پر منحصر کرے گا کہ ہندوستانی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف گھریلو سیریز میں کیسا انجام دیتا ہے۔ اگر وراٹ سری لنکا کی کامیابی کو اس سیریز میں بدل دیتے ہیں تو پھر ان کی جارحیت پر سوال اٹھانے والے ہی بولڈ ہو جائیں گے۔