چین، جاپان اور آئرلینڈ کے ماہرین نے مشترکہ طور پر ملیریا اور طفیلی جرثوموں کے امراض کے خلاف جدوجہد پر طب کے شعبے میں نوبیل انعام اپنے نام کرلیا جن کے کام کو انعامی کمیٹی نے طریقہ علاج کے لیے انقلابی تبدیلی قرار ہے۔
نیو جریسی کی ڈریو یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو ولیم کیمبل اور جاپان کے ساتوشی اومیورا نے طب کا نوبیل انعام چین کی یویو ٹو کے ساتھ شیئر کیا ہے۔
ولیم کیمبل اور ساتوشی اومیورا کو دنیائے طب کا سب سے بڑا انعام دریائی اندھے پن اور پاﺅں کے ہاتھی کی طرح پھول جانے کے امراض میں ڈرامائی کمی لانے کے حوالے سے ایک دوا کی تیاری کے کام پر دیا گیا، جبکہ چین کے یویو ٹو نے جڑی بوٹیوں کی طاقت سے متاثر ہوکر ایسی دوا ایجاد کی ہے جس سے ملیریا جیسے جان لیوا مرض کے موثر علاج میں مدد ملی ہے۔
دنیا بھر کی سو اقوام کے 3.4 ارب افراد مچھروں کے کاٹنے سے پھیلنے والے اس مرض کے خطرے سے دوچار ہیں۔
انعامی کمیٹی کے مطابق ان تینوں کے کام سے انفرادی سطح اور معاشرے میں بہتری اور خوشحالی کو فروغ ملے گا۔
جاپان کے اسی سالہ امیورا نے زمینی سطح کے ہزاروں نمونے اکھٹے کیے اور اس کی مدد سے طفیلی جرثوموں کے باعث پھیلنے والے دونوں امراض کا علاج تیار کیا جو ہر سال تیس کروڑ افراد کو متاثر کرتے ہیں۔
85 سالہ کیمبل نے اس تحقیق کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اس سے دوا تیار کی جس کی آزمائش کے دوران فارم کے جانوروں میں جرثوموں کے علاج کے مثبت اثرات دیکھنے میں آئے۔
84 سالہ یویو ٹو نے 1700 سال پرانے چینی تحریر سے متاثر ہوتے ہوئے ملیریا کے مقابلے کے لیے دوا تیار کی، جس میں بخار سے بچانے کے حوالے سے میٹھی افسنتین (ایک قسم کی بوٹی) کے استعمال پر روشنی ڈالی گئی تھی اور اس کی مدد سے چینی ماہر نے artemisinin کو دریافت کیا جسے ملیریا کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔