سدھارتھ نگر(نامہ نگار) کسانوں کے مفاد میں کئے جارہے حکومت و انتظامیہ کے تمام دعوے بے مطلب ثابت ہورہے ہیں، یوریا کھاد کی قلت برقرار ہے، ایک طرف کسان کھاد کے لئے مارا مارا پھررہا ہے تو دوسری طرف کھاد کی تسکری جاری ہے۔ گیہوں کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے یوریا کی سخت ضرورت ہے لیکن اس وقت کھاد کے مراکز پر کھاد کی دستیابی ناممکن ہے۔ علاقہ کی
سبھی سمیتیاں بند پڑی ہوئی ہیں۔ برڈپور کے علاقہ میں خواہ ربی کی فصل ہو یا خریف کی فصل ، یہاں کے کھاد اسمگلربڑی مقدار بھیجتے ہیں۔ یوریا کا زیادہ سے زیادہ قیمت ۳۳۰ ؍روپئے ہے لیکن یہی یوریا نیپال میں جاکر ۸۰۰ سے ۱۰۰۰؍روپئے میں بیچا جاتا ہے۔کھاد کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کی وجہ سے یہاں پرکھاد کی قلت ہوجاتی ہے جس کا فائدہ اٹھاکر تاجریہاں کے کسانوں سے بھی قیمت بڑھا کر۵۰۰؍روپئے سے لے کر ۵۵۰ ؍روپئے تک وصول رہے ہیں ۔ تاجروں کی شرط ہوتی ہے کہ یوریا کے ساتھ زنک وغیرہ خریدنا ضروری ہے۔
ضلع ہیڈکوارٹر، اس سے متصل پرانی نوگڑھ، برڈپور اور موہانہ کے تقریباً درجنوں تاجر اپنے گوداموں میں کھاد ڈمپ کئے ہوئے ہیں، ہر روزبارڈر پر کھلے عام کھاد کی اسمگلنگ نیپال کے لئے ہورہی ہے۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ کھاد اسمگلنگ پر لگام لگائے جس سے کسانوں کو بھٹکنا نہ پڑے۔ مقامی باشندوں کی رائے سے اس چیز کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔