ممبئی۔ ممبئی کی فلم ساز کمپنی، ریلائنس انٹرٹینمنٹ نے اپنی نئی فلم ’’سنگھم ریٹرن‘‘ کے ٹریلر جاری کیے۔ اس فلم کا ہیرو ،انسپکٹر باجی راؤ سنگھم بہت بہادر اور دلیر آدمی ہے۔ وہ جرآت سے مجرموں کے خلاف لڑتا اور انہیں شکست دیتا ہے۔ ’’سنگھم ریٹرن‘‘ میں انسپکٹر باجی راؤ کالے دھن (Black Money) کا دھندہ کرنے والوں سے ٹکر لیتا ہے۔ یہ کردار اداکار اجے دیوگن نے بخوبی نبھایا۔لیکن جلد ہی ہندو انتہا پسند مذہبی تنظیمیں اس فلم کے خلاف زور دار مہم چلانے لگیں…وجہ؟ انہیں سنگھم ریٹرن کے بعض مناظر پر اعتراض تھا۔ایک منظرمیں انسپکٹر باجی راؤ ایک ہندو سادھو سے ملاقات کرتا ہے۔ حقیقتاً وہ سادھو نہیں مذہب کے پردے میں مجرم پیشہ شخص ہے۔ اسی لیے جب سادھو اسے مذہبی بھاشن دینے لگا، تو انسپکٹر ترنت بولا ’’میں تیرا دو کوڑی کا پروچن (لیکچر) سننے نہیں آیا ہوں۔‘‘ہندو انتہا پسند رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ اس منظر میں ہندومت کو تضحیک و توہین کا نشانہ بنایا گیا۔فلم کے ایک اور منظر میں انسپکٹر باجی راؤ مسلم ساتھیوں ک
ے ساتھ مسجد میں جاتا، ٹوپی پہنتا اور نماز پڑھتا ہے۔ اس منظر نے بھی انتہا پسند ہندوؤں کے دلوں میں آگ لگادی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ منظر مسلمانوں کو رحم دل اور محبت کرنے والوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ہندو انتہا پسند تنظیموں نے پھر فلم ساز کمپنی ،ریلائنس انٹرٹینمنٹ کو دھمکی دی کہ اگر سنگھم ریٹرن 15 اگست کو ریلیز ہوئی، تو سینماؤں پر حملہ کر دیا جائے گا۔ اس کھلی غنڈہ گردی سے کمپنی کے کرتا دھرتا خوفزدہ ہوگئے۔چنانچہ فلم سے وہ تمام مناظر ہٹا دیئے گئے جو بقول انتہا پسند ہندوؤں کے ’’اسلامی ایجنڈا‘‘ کی تکمیل کرتے تھے۔اس واقعے سے عیاں ہے کہ بھارت میں جب سے آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے دیرینہ کارکن، نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، ہندو انتہا پسند تنظیموں کے حوصلے بہت بڑھ چکے۔ اب ان کی سعی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہندو قوم پرستی کو فروغ دیا جائے۔ اس ضمن میں وہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے حقوق تک کچلنے کو تیار ہیں۔یہ انتہا پسند خصوصاً بالی وڈ کو اپنے دائرہ اختیار میں لانا اور اسے ہندتو ا(ہندو قوم پرستی) کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ بالی وڈ اب تک خاصی حد تک مذہبی فرقہ واریت سے پاک رہا ہے تاہم فلموں کے بعض کرداروں پر لے دے ہوتی رہی۔مثال کے طور پر جب بھی کسی فلم میں بنیے یا سود خور کو ہندو دکھایا گیا، تو ہندو قوم پرست جماعتوں نے واویلا مچایا۔ اسی طرح پٹھان بنیے کے کردار کو مسلمانوں نے ناپسند کیا۔ ہندوستانی فلموں میں غنڈے بدمعاش بھی ہندو یا مسلمان دکھائے جاتے رہے ہیں۔1993ء میں بمبئی خوفناک ہندو مسلم فساد کا نشانہ بنا۔ 1995ء میں مشہور ڈائریکٹر مانی رتنام نے ’’بمبئی‘‘ فلم بنائی جو ایک ہندو نوجوان اور مسلم لڑکی کے عشق پر مبنی تھی۔ اس کا موضوع 1993ء کا ہندو مسلم فساد بنایا گیا۔لیکن شیوسینا کے آنجہانی لیڈر، بال ٹھاکرے نے فلم کو ریلیز نہیں ہونے دیا۔ وہ فلم میں ایک منظر تبدیل کرانا چاہتا تھا۔ اس منظر میں بال ٹھاکرے کی شخصیت پر مبنی کردار ہندو مسلم فسادات پر اظہار افسوس کرتا ہے جبکہ بال ٹھاکرے کی خواہش تھی کہ وہ فخر و خوشی کا اظہار کرے۔بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کو شاید اس لیے کامیابیاں ملیں کہ نفرت اور شر پھیلانا آسان ہے، محبت کرنا مشکل! اسی واسطے چین کے مدبر، کنفیوشس نے ہزارہا سال قبل کہا تھا :’’تمام اچھی چیزیں حاصل کرنا کٹھن کام ہے، جب کہ بْری چیزیں بہت آسانی سے ہاتھ آجاتی ہیں۔‘‘اب انٹرنیٹ کی صورت مخالفین پر رعب جمانے اور غنڈہ گردی دکھانے کے لیے انتہا پسندوں کو نیا ہتھیار مل گیا ہے۔ سنگھم ریٹرن کے خلاف مہم میں اس ہتھیار کو بھی وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ دو ویب سائٹوں نے خصوصاً ہندو نوجوانوں میں فلم کے خلاف اشتعال پیدا کیا۔ دوران مہم فیس بک اور ٹویٹر پہ خصوصی صفحے تخلیق ہوئے اور ہیش ٹیگز بنائے گئے۔سنگھم ریٹرن کے خلاف انتہا پسند ہندو صحافی، اپنندہ برہم چاری پیش پیش رہا۔ موصوف ویب سائٹ کا ایڈیٹر ہے۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ بالی وڈ اب بھی مسلمانوں کے ’’قبضے‘‘ میں ہے۔ اس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا:’’بالی وڈ طویل عرصہ ایک مسلمان، داؤد ابراہیم کے کنٹرول میں رہا۔ اب انیل امبانی کی مسلمان بیوی اسے اپنے دائرہ اختیار میں لانے کی کوشش میں ہے۔‘‘دلچسپ بات یہ کہ بھارتی کھرب پتی اور ریلائنس انٹرٹینمنٹ کے مالک، انیل امبانی کی بیگم، سابقہ اداکارہ ٹینامینم مسلمان نہیں جین مت سے تعلق رکھتی ہے۔انتہا پسند ہندو ان تمام مسلمانوں کی کھوج میں رہتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح بالی وڈ میں کام کررہے ہوں۔ مسلم فلمی ادیب ان کا خاص نشانہ بنتے ہیں۔ اور اتفاق دیکھیے کہ سنگھم ریٹرن کی کہانی بھی مسلمان لکھاریوں ہی نے لکھی۔سنگھم ریٹرن کا اسکرپٹ ساجد اور فرہاد سامجی کی جوڑی نے لکھا۔ جبکہ اسکرین پلے یونس سجوال کی کاوش ہے۔ اس امر نے پریم چاری جیسے انتہا پسند ہندوؤں کو مزید طیش دلا دیا۔ سو اس نے 3 اگست کو اپنی ویب سائٹ کی ایک پوسٹ میں لکھا:’’اے ہندوؤ! اٹھ کھڑے ہو۔ امبانی، اجے دیوگن اور (فلم کے ڈائریکٹر) روہت شیٹی کو ’’نفرت کی رسّی‘‘ سے باندھو اور انہیں ’’انتقام کی آگ‘‘ کے شعلوں کی نذر کر ڈالو۔‘‘موصوف نے گرج برس کر مزید فرمایا:’’ایم ایف حسین نے جب ہندو مت کے خلاف پاگل پن دکھایا، تو ہم نے اسے بھارت میں ٹکنے نہیں دیا۔ اب ان حرام زادوں کو یہ رعایت کیوں دی جارہی ہے۔؟‘‘برہم چاری کا شمار کٹر ہندو رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ چنانچہ بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد وغیرہ انتہا پسند جماعتوں کے لیڈر کسی وجہ سے افہام و تفہیم کی بات کریں، تو اسے آگ لگ جاتی ہے۔ برہم چاری پھر اشوک سنگل، پروین ٹوگڈیا وغیرہ ہندو لیڈروں پر سخت تنقید کرتا اور الزام لگاتا ہے کہ وہ ’’ہندو راشٹریہ‘‘ یا ہندو ریاست قائم نہیں کرنا چاہتے۔
سری سری روی شنکر ان کٹر ہندو رہنماؤں کا محبوب لیڈر ہے۔ سری روی شنکر لاکھوں ہندوؤں کا روحانی رہنما بالی وڈ فلموں اور فلمی ستاروں پر اکثر تنقید کرتا ہے۔ اپنے لیکچروں میں اکثر کہتا ہے:’’اداکار اور اداکارائیں شراب کے نشے میں مدہوش رہتی ہیں۔ یہ مردو زن منشیات استعمال کرتے اور مخلوط محفلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ جو پیسا ضائع کرتے ہیں، آخر کس کا ہے؟ یہ عوام کا ہے۔‘‘2012ء میں بالی وڈ فلم ’’او مائی گاڈ‘‘ آئی، تو روی شنکر اور دیگر ہندو سادھوں نے اسے زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ یاد رہے، اس فلم میں ہندو سادھوؤں کا ’’مذہبی کاروبار‘‘ بڑی گہرائی والے اور نفیس انداز میں عیاں کیا گیا ہے۔ روی شنکر نے اپنے ایک مضمون میں فلم پر کچھ یوں گولہ باری کی:’’اکشے کمار کو فلم میں بھگوان کرشنا کے روپ میں دکھایا گیا۔ مگر وہ کئی بار مغربی لباس میں ملبوس نظر آیا۔ ایک منظر میں شری کرشن سدرشن چکر کے بجائے انگلی میں کی چین گھماتے نظر آتے ہیں۔ لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں، اداکار پاریش راول مکالموں کے ذریعے ہمارے دیوی دیوتاؤں کی توہین کرتا رہا۔ درحقیقت یہ فلم ہندو مخالف مکالموں سے بھری پڑی ہے۔‘‘چند ماہ بعد انتہا پسند ہندو ایک اور فلم ’’بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اس فلم کا ایک گانا ’’مستوں کا جھنڈ‘‘ ان کی تنقید کا نشانہ بنا۔ اس گانے میں ایک ہندوانہ رسم ’’ہون‘‘ کا تذکرہ ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ گانے میں اس رسم کی توہین کردی گئی۔سنگھم ریٹرن کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کی مہم کا نقطہ خاص یہ ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا سے بہت مدد لی۔ فیس بک پر پیغامات لاکھوں ہندوؤں تک پہنچائے گئے۔ غرض یہ مہم شیئرز، لائکس، ٹوئٹس اور گوگل سرچ کی بدولت پورے بھارت میں پھیل گئی۔ درحقیقت سوشل میڈیا میں جنم لینے والی مخالفانہ مہم ہی نے سنگھم ریٹرن کے تخلیق کاروں کو مائل کیا کہ وہ فلم سے بظاہر ہندو مخالف مناظر ہٹادیں۔
گویا انٹرنیٹ تیزی سے ان لوگوں کا آلہ کار بنتا جارہا ہے جو معاشروں میں دوسروں کے خلاف نفرت و شر پھیلاتے ہیں۔ مثبت ایجادات کا یہی منفی پہلو عموماً بعد میں سامنے آتا ہے۔دریں اثناء برسراقتدار بھارتی جماعت، بی جے پی کا ’’آرٹ اینڈ کلچرل ونگ‘‘ بالی وڈ میں فلمی ستاروں، ڈائرکٹروں اور پروڈیوسروں سے رابطے کررہا ہے۔ اس ونگ کا سربراہ ایک کٹر ہندو، ڈاکٹر متلیش کمار ترپاٹھی ہے۔ڈاکٹر متلیش کمار چاہتا ہے کہ بالی وڈ اب ہندو تہذیب و ثقافت اجاگر کرنے والی فلمیں بنائے…ایسی فلمیں جن میں دیوی دیوتاؤں اور مشہور ہندو شخصیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے اور ان فلموں میں بدیسی (اسلامی و مغربی تہذیبوں کے اثرات) بالکل نہ آنے پائیں۔بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی گھاگ آدمی ہیں۔ وہ اچانک بالی وڈ پر ہندوانہ نظریات تھوپ کر وہاں افراتفری نہیں مچانا چاہتے۔ اسی لیے وہ دھیرے دھیرے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں… یہ کہ بالی وڈ سے مسلمان فن کاروں، لکھاریوں، ڈائریکٹروں، موسیقاروں، گیت کاروں وغیرہ کا بوریا بستر گول کردیا جائے۔ اگر ایسا ہوا، تو یہ بالی وڈ کی بہت بڑی بدنصیبی ہوگی۔