ایس اے ساگر
کیا آپ نے کبھی برصغیر ہند‘پاک میں لارڈ میکالے کے ہاتھوں جاری کردہ اعلی تعلیم بی اے یا ایم اے جیسی ڈگریوں کو غور سے پڑھا ہے کہ اس میں کونسے الفاظ درج ہوتے ہیں ؟ اس میں لکھا ہوتاہے کہ فلاں شخص نے اتنے نمبر حاصل کرکے فلاں امتحان پاس کر لیا۔ دوسرے لفظوں میں ڈگری دراصل اس امر کا ثبوت ہوتی ہے کہ کسی شخص نے کتنی جماعتیں پڑھ رکھی ہیں تاہم کسی بھی ڈگری میں یہ نہیں لکھا جاتا کہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس شخص کو با شعور بھی سمجھا جائے جبکہ تعلیم یافتہ اور با شعور ہونے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ان پڑھ اور جاہل ہونے میں۔جس طرح یہ ضروری نہیں کہ بی اے پاس شخص با شعور بھی ہوبالکل اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ رسمی تعلیم سے نابلد شخص جاہل ہو۔وطن عزیز میںجو شخص چار جماعتیں پاس کر کے تعلیمی سند حاصل کر لیتا ہے وہ اپنے آپ کو ان سے افضل سمجھنے لگتاہے جو کسی اسکول کالج سے پڑھے نہیں ہوتے جبکہ ایسے لوگ جو ضرورت سے زیادہ پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ انواع و اقسام کی اسناد سینے پر سجا کر پھولے نہیں سماتے ،انہیں تعلیم کا ہیضہ اور علم کا تکبرلاحق ہو جاتا ہے۔ان پڑھے لکھوں کو یہ زعم ہو جاتا ہے کہ خدا نے صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت صرف انہی کو ودیعت کی ہے ،چونکہ وہ معاشرہ کے با شعور طبقہ میں شامل ہیں لہٰذا معاشرہ کو ان کی سوچ کے مطابق پروان چڑھنا چاہئے۔معاشرہ کی اس تلخ حقیقت پر روشنی ڈالی جاتی رہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ خود کو مہذب کہنے والے ایسے جہلا کسی وحشی سے کم نہیںہوتے۔
ضعیف الاعتقادی کے شکارسائنسداں:
کیا سائنسداں بھی ضعیف الاعتقادی میں مبتلاہو سکتے ہیں ؟ بعض لوگوں کو یہ سوال ایسا ہی لگے گا کہ کیا اونچائی سے ڈرنے والے پرندوں ہو سکتے ہیں ؟ ہوسکتا ہے کہ زیادہ تر عام لوگوں کو یہ سوال آسان لگے۔ عام لوگوں کی توقع کیخلاف سائنسدانوں میں ایسے لوگوں کا تناسب شاید زیادہ ہو ۔ آخر سائنسدان بھی انسان ہیں اور انسان کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کی راست بازی اورضعیف الاعتقادی کی بحث ان دنوں ہندوستان کے مریخ سفرکے تناظر میں پھر سے ہو رہی ہے۔پتہ چلاکہ مریخ کی جانب کے چھوڑے جانے کے قبل اسرو کے سائنسدانوں نے تروپتی میںبھگوان بالاجی کی پوجا کی بلکہ ہر مشن سے قبل وہ بالاجی کی پوجا کرتے ہیں۔یوں عام طور پر پلوں اور دیگر ترقیاتی پروگراموں کے افتتاح پر ناریل پھوڑنے کا نظارہ خوب دیکھنے میں آتاہے جسے آپ بردادران وطن کا مذہبی جذبہ بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ خود ساختہ سادھووں پر کھلے عام تنقید کی وجہ سے اگست کے دوران ایک رضا کار نریندرہ دابھالکر کو پونے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ بہرحال ‘ایسے ملک میں جہاںعدالت میں بابری مسجد جیسے معاملات کا تصفیہ ’آستھا‘ کے تحت کیاجاتا ہو‘ لب کشائی آسان نہیں ہے جبکہ سوامی اگنی ویش نے بھی اس قسم کی روایات کو مسترد کیا ہے ۔ جہاں تک ضعیف الاعتقادی کا سوال ہے، تو امریکی سائنسی ہر مشن کے پہلے مونگ پھلی کھاتے ہیں جبکہ روسی خلائی جہاز میں سوار ہونے سے قبل اس کے پچھلے دائیں پہئے پر پیشاب کرتے ہیں۔بتایا یہ بھی جاتا ہے کہ اسرو کے ایک سابق ڈائریکٹر ہر راکٹ کے چھوڑے جانے کے دن نئی شرٹ پہنتے تھے۔ اگرجدید دور کے نامور سائنسدانوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں ایسے لوگ کم ہی پائے جائیں گے جو ضعیف الاعتقادی سے پاک ہوں جبکہ انہی کی کاوشوں سے آج انسانیت کو بے شمار فتوحات نصیب ہوئی ہیں‘ ایسے میںاگر کوئی سائنسداں نئی شرٹ پہن کر پی ایس ایل وی 12 کے بعد ایس ایل وی 13 داغے تو اس میںتعجب کی کیابات ہے؟یوں فہرست مرتب کی جائے تو سائنسدانوںسے وابستہ متعدد افعال ایسے ہیں جن پر استعجاب فطری امر ہے۔
’فراری‘ کیوں ہوا بے قابو؟
ددسری جانب یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بعض اوقات سائنسدانوں کی کوششیں نہ صرف ضعیف بلکہ مہلک بھی ثابت ہوتی ہیں۔ یوروپ کی خلائی ایجنسی کا مصنوعی
زمین کی فضا میں داخل ہونے کے بعدتازہ ترین اطلاعات کے بموجب اس میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔ابتدائی اندازوں کے مطابق مصنوعی سیارے کا بچ جانے والا ملبہ مشرقی ایشیا اور مغربی انٹارکٹکا میں گرے گا جبکہ گوسے یوروپی خلائی ایجنسی کا 25 سال میں پہلا مصنوعی سیارہ ہے جو کسی کنٹرول کے بغیر دوبارہ زمین کی فضا میں داخل ہوا ۔دراصل مصنوعی سیاروں میں ایندھن ختم ہونے کے بعد کشش زمین کا عمل ناگزیر ہو جاتا ہے۔یہ خلائی سیارہ زمین سے 224 کلومیٹر کی بلندی پر مدار میں گھوم رہا تھا جو کہ سائنسی معلومات فراہم کرنے والے کسی بھی مصنوعی سیارے کا سب سے کم بلندی پر مدار ہے۔مصنوعی سیارے کے الیکٹرک انجن کو کام کرنے کیلئے ایندھن کی مسلسل ضرورت ہوتی ہے لیکن گذشتہ ماہ اس کا ایندھن ختم ہو گیا تھا۔گوسے کا آخری بار مشاہدہ اتوارکے روز انٹارکٹکا پر 121 کلومیٹر بلندی پر کیا گیا تھا اور اس میں بچ جانے والے ایندھن کی مدد سے اس کا رخ مشرقی نیوزی لینڈ کے جنوب میں واقع سمندری پٹی کی جانب موڑا گیا ہے جہاں انسانی آبادی نہیں ہے۔اعداد و شمار کے مطابق روزانہ خلائی ملبے کا کم از کم ایک ٹکڑا زمین کی فضا میں داخل ہوتا ہے جبکہ ہر ہفتہ ایک ناکارہ مصنوعی سیارہ یا خلائی راکٹ دوبارہ زمین کی فضا میں داخل ہوجاتا ہے۔
کیوںجان لگادی داو پر؟
یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے ممتازمفتی اورسپریم علماکونسل کے رکن الشیخ علی الحکمی نے کہاہے کہ مریخ سیارے کے آزمائشی سفرمیں شمولیت خودکو دانستہ ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے اس لئے شریعت میں ایسے سفرکی کوئی گنجائش نہیں ہے جبکہ مریخ کی سیرکیلئے پوری دنیا سے ایک لاکھ افرادکو منتخب کیاگیا ہے۔ ان میںسعودی عرب کے 6باشندے بھی شامل ہیں۔ یہ سفر 7ماہ پرمحیط ہوگا۔ لندن سے شائع ہونیوالے اخبارالحیا نے سعودی عالم دین علامہ الحکمی کا بیان نقل کیا جس میںان کاکہنا ہے کہ مریخ چونکہ بہت دورواقع ہے اور 7ماہ کے خلائی سفرمیں جانی نقصان کا غالب امکان ہے‘میں سعودی شہریوں سے کہوں گا کہ وہ اس سفرسے بازرہیں جبکہ 40سال سے کم عمرکوئی بھی شخص محض 38ڈالر اداکر کے اس سفرمیں شامل ہوسکتا ہے۔
مفت مریخ کی سیر:
یہاں تو مسئلہ محض 38ڈالر اداکرنے کا ہے جبکہ ایک کروڑ پتی امریکی کاروباری شخصیت نے 2018 میں کسی ایک شادی شدہ جوڑے کو مفت مریخ کی سیر کروانے کا اعلان کیا ہے۔امریکی بزنس مین ڈینس ٹیٹو Dennis Tito نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ ایک شادی شدہ امریکی جوڑے کو سیر کیلئے مریخ پر بھیجیں گے اور اس پر آنے والے تمام اخراجات دو ارب ڈالر تک وہ خود برداشت کریں گے۔امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی اس سلسلہ میں مدد کی پیش کش کی ہے ۔دی انسپریشن مارس فاونڈیشن The Inspiration Mars Foundation کے اس پروجیکٹ کا نام ’انسپریشن مارس‘رکھا گیا ہے۔ڈینس ٹیٹو کا کہنا ہے کہ خلا کا یہ سفر 501 دنوں پر مشتمل ہوگا جو اگست 2018 میں شروع ہو کر مئی 2019تک جاری رہے گا۔
سیارہ ’گوسے‘ واپس زمین کی فضا میں داخل ہوچکا ہے۔اس سیٹلائٹ کو اپنی دلکش بناوٹ کی وجہ سے خلا کی فراری بھی کہا جاتا ہے۔دوبارہ