کیوشی مابوچی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تحقیق سے ہڈیوں کے جوڑوں کا مصنوعی نعم البدل تیار کرنے میں مدد ملے گی۔آخر کیلے کے چھلکے پر لوگ پھسلتے کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی تحقیق کو آئی جی نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔واضح رہے کہ باوقار نوبیل انعام کی مزاحیہ نقالی والے اس ایوارڈ کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور کیلے کے چھلکے پر پھسلنے کی وجہ دریافت کرنے کے لیے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں اس کی سالانہ تقریب میں اس انعام کا اعلان کیا گیا۔
آئی جی نوبیل کا مقصد یہ ہے کہ یہ پہلے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کرتا پھر سوچنے پر۔کیوشی مابوچی کی سربراہی میں جاپانی ٹیم نے ایک لیب میں کیلے کے چھلکے میں فرکشن یا رگڑ کی صلاحیت کی جانچ کی اور بتایا کہ سیب یا نارنگی کے چھلکے اتنے طوفان آمیز کیوں نہیں ہوتے۔کیٹاساٹو یونیورسٹی کی ٹیم کو اس تحقیق کے لیے ط
بیعیات کے شعبے میں آئی جی نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔یہ اپنے آپ میں ایک نادر تحقیق ہے۔
سائنس کی مزاحیہ میگزن اینلز آف امپروبیبل ریسرچ یعنی بعید از قیاس تحقیقات کی جانب سے ہر سال یہ انعام دیا جاتا ہے جو پہلے پہل بظاہر مزاحیہ لگتا ہے لیکن جب آپ ذرا اس کی تہہ میں جاتے ہیں تو یہ سنجیدہ ہو جاتا ہے۔انعام یافتہ تحقیق میں جاپانی سائنسدانوں نے یہ جانے کی کوشش کی ہے کہ رگڑ اور چکنائی ہمارے پٹھوں کے حرکات پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔
وہ چکنائی جو کیلے کے چھلکے میں پائی جاتی ہے وہی ہماری ہڈیوں کے جوڑوں میں بھی پائی جاتی ہے جسے انگریزی میں polysaccharide follicular gels کہتے ہیں۔ ٹوسٹ کے جلے حصے سے میں بھی چہرے نظر آتے ہیں۔کیوشی مابوچی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس تحقیق سے ہڈیوں کے جوڑوں کا مصنوعی نعم البدل تیار کرنے میں مدد ملے گی۔‘اس سال نیورو سائنس یا علم الاعصاب کے شعبے میں اس تحقیق کو انعام دیا گیا جس میں ایسے لوگوں کے دماغ پر تحقیق کی گئے تھی جنھیں بریڈ /ٹوسٹ کے ٹکڑے میں حضرت عیسی یا دیگر لوگوں کی تصاویر نظر آتی ہیں۔کینیڈا کی ٹورونٹو یونیورسٹی کے کانگ لی اور ان کے ساتھیوں نے ’شور کی تصویر‘ کے تعلق سے تحقیق کی۔ جس طرح کبھی آپ کو اچانک بند ٹی وی میں کچھ نظر آ جاتا ہے یا پھر چاند میں نظر آنے والے دھبوں کو لوگ اپنے حساب سے تعبیر کرتے ہیں اس طرح اس میں لوگوں کو کسی چیز میں کچھ دیکھنے کی کوشش کرنے کے لیے کہا گیا۔بے ترتیبی میں ترتیب دیکھنے کی عادت جیسے بریڈ کے جلے ہوئے حصے کو جوڑ کر کوئی چیز یا شکل دیکھنے جیسی چیز اپنے آپ میں مسلم ہے جسے پیروڈولیا یعنی دھندلے عکس کی تعبیر کہا جاتا ہے۔لی اور ان کی ٹیم کے اراکین نے ایمی جنگ کا استعمال کرتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ کس طرح دماغ کا ایک ہی حصہ غیر وجود پذیر چہرے اور اصلی چہرے کے دیکھنے پر روشن ہوتا ہے۔
پروفیسر لی نے کہا کہ اس روش کو ’ہارڈ وائرڈ‘ کہتے ہیں اور چمپانزی بھی اس طرح محسوس کرتے ہیں۔دھندلے عکس میں سے جو تصویر آپ کو نظر آنی ہے وہ آپ کی امید اور یقین پر منحصر کرتی ہے۔انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’مثال کے طور پر بودھ مت کے ماننے والوں کو ٹوسٹ پر حضرت عیسی کی تصویر کے بجائے ممکن ہے کہ مہاتما بدھ کی تصویر نظر آئے گے۔‘یہ آئی جی نوبیل کا ۲۴واں سال ہے اور ہر سال اس میں ترقی ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ نفسیات، صحت عامہ، علم حیات، فن، علم معاشیات، طب، آرکٹ سائنس، غذائیت وغیرہ شعبے میں بھی آئی جی نوبیل دیا گیا۔