ایک نئی تحقیق کے مطابق ہر سال پستان کے سرطان کی شکار لاکھوں خواتین اس کے خاتمے کے سلسلے میں کم از کم ایک صبر آزما علاج سے بچ سکتی ہیں۔
اس اسٹڈی کے مطابق مریض کے لیے کسی اضافی خطرے کے بغیر جن علاجوں سے بچا جا سکتا ہے ان میں سرجری، کیمو تھیراپی اور ریڈی ایشن شامل ہیں۔اس تحقیق کا مقصد ضرورت سے زائد علاج کا راستہ روکنا تھا، جو کینسر کے علاج کے سلسلے میں واقعی ایک مسئلہ ہے۔ پستان کے سرطان کے علاج سے خواتین اس مرض کو شکست دے سکتی ہیں تاہم اس سلسلے میں علاج کے بہت زیادہ مراحل یا ایسے ٹریٹمنٹ جو ضروری نہیں ہوتے، ان کے باعث نہ صرف اخراجات زیادہ ہوتے ہیں بلکہ تکلیف دہ ہونے کے علاوہ ان کے زندگی بھر کے لیے سائیڈ افیکٹس بھی ہو سکتے ہیں، مثلاً
بازوؤں کی سوزش یا دل کے مسائل۔ ریڈی ایشن تو بعض اوقات نئی اقسام کے کینسر کے خطرات کو بھی بڑھا دیتی ہے۔
اس حوالے سے مختلف اسٹڈیز کے نتائج کینسر کے حوالے سے ’سان انتونیو بریسٹ کینسر سمپوزیم‘ کے نام سے ہونے والی ایک کانفرنس میں پیش کیے گئے۔ ان اسٹڈیز میں مریضوں کے ایسے گروپوں کی نشاندہی بھی کی گئی، جن کو علاج کے بعض طریقوں سے باآسانی بچایا جا سکتا تھا۔ایک اسٹڈی کے مطابق زیادہ عمر کی ایسی خواتین کو جو پستان کے سرطان کے ابتدائی مراحل میں ہوتی ہیں، انہیں آپریشن کے بعد ریڈی ایشن کے مرحلے سے بچایا جا سکتا ہے۔ دیگر دو اسٹڈیز کے مطابق ایسے مریض جن میں کینسر پہلے ہی بہت زیادہ حد تک پھیل چکا ہو انہیں سرجری سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایک اور جائزے میں ’ہلکی کیموتھیراپی‘ کے طریقہ کار کو آزمایا گیا اور جو علاج کے لیے ایک نیا اسٹینڈرڈ بن سکتا ہے۔
اس کانفرنس کے ایک رہنماکے مطابق کیسنر کی بعض اقسام کے لیے اب رجحان یہ ہے کہ ’کم سے کم علاج‘ کیا جائے۔ اس کانفرنس کے دوران مخصوص حالات میں جن طریقہ علاج سے بچنے کے امکانات کے بارے میں بتایا گیا ہے، ان میں سرجری، ریڈی ایشن اور کیمو تھیراپی شامل ہیں۔