لکھنؤ۔(نامہ نگار)۔ عام طور پر لوگ کسی کی موت کی تمنا نہیں کرتے لیکن ک
ے جی ایم یو کے یورولوجی میں رجسٹرڈ پچیس افراد نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے گردے خراب ہو چکے ہیں اور زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ واضح رہے کہ ان لوگوں کاپورا کنبہ ہے لیکن گردہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ کیڈور آرگن ڈونیٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔
بجنور ضلع کی رہنے والی ۶۰ سالہ رنجنا (فرضی نام) جن کا پورا کنبہ ہے ، رنجنا کے دونوں گردے خراب ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ان کے بچے بڑے ہو چکے ہیں اور شادی شدہ ہیں لیکن ماں کو عضو دینے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔ رنجنا گزشتہ چاربرسوں سے ڈائلیسس پر چل رہی ہیں۔ رنجنا کئی بار اس کیلئے کنبہ کے لوگوں سے بات کر چکی ہیں کہ انہیں کوئی ایک گردہ دے دیتا تو انہیں اسپتال سے چھٹی مل جاتی اس کے باوجود کنبہ کا کوئی بھی رکن گردہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ آخر کار انہوں نے یورولوجی شعبہ میں کیڈور آرگن ڈونیٹ کیلئے درخواست دی ہے۔
راجہ جی پورم میں رہنے والے چالیس سالہ شرد ہی کے جی ایم یو میں چھ ماہ سے ڈائلیسس کرا رہے ہیں۔ شرد کی اہلیہ اور بچوں کے علاوہ بھائی اور والدین بھی ہیں۔ گردہ خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے انہیں بھی پیوند کاری کرانے کا مشورہ دیا ہے ۔کنبہ کے اراکین سے گردہ نہ ملنے کی وجہ سے بھی وہ کیڈور ٹرانس پلانٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ شرد نہ چاہتے ہوئے بھی کسی ایسے شخص کی موت کی تمنا کر رہے ہیں جس کا گردہ انہیں مل سکے۔ کچھ ایسے ہی حالات سے مرزا پور کا عامر بھی گزر رہا ہے جس کی عمر ۱۵ سال ہے لیکن اس کے گردے کام نہیں کر رہے ہیں۔ عامر کی بھی پریشانی یہی ہے کہ اسے بھی رشتہ داروں سے گردہ نہیں مل پا رہاہے۔ نتیجہ کے طور پر وہ بھی کیڈور کا انتظار کر رہا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ عامر چار ماہ سے ڈائلیسس کرا رہا ہے۔
کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی کے آرگن ٹرانس پلانٹ شعبہ کے اسسٹنٹ پروفیسر منمیت سنگھ کے مطابق کیڈور یعنی ایسے مریض جن کا دماغ کام نہ کر رہا ہو انہیں برین ڈیڈ مریض کہتے ہیں۔ شعبہ میں جو مریض رجسٹرڈ ہیں ان کو کیڈور کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریض کو آرگن ٹرانس پلانٹ کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے خون کا گروپ اور اعضاء عطیہ کرنے والے کے خون کا گروپ ایک ہو۔ تبھی اعضاء کی پیوند کاری کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر بیماری کا صحیح وقت پر پتہ چل جائے تو گردہ پیوند کاری کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن کئی بار ایسا نہیں ہو پاتا۔ مریضوں کو بیماری کا پتہ جب چلتا ہے جب وہ پانچویں مرحلہ میں پہنچ جاتے ہیں ایسے میں ٹرانس پلانٹ ہی متبادل رہ جاتا ہے۔
شتابدی میں شروع ہوگا ٹرانس پلانٹ:- کے جی ایم یو کو آرگن ٹرانس پلانٹ کی اجازت مل چکی ہے۔ کافی عرصہ سے کے جی ایم یو ٹرانس پلانٹ شروع کرانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن حکومت کی سطح سے اس پروجیکٹ کو ہری جھنڈی نہیں مل رہی تھی۔اس کی وجہ سے کے جی ایم یو میں پی جی آئی کے ساتھ مل کر پیوند کاری کر رہا تھا۔ اب حکومت نے اس کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد شتابدی اسپتال کے فیز -۲ کو ڈائلیسس یونٹ کے طور پر تیار کیاجائے گا جہاں کیڈور ٹرانس پلانٹ کی سہولت ہوگی۔