گاجر کے استعمال سے کینسر کی گلٹیاں بننے کا عمل رک جا تا ہے، یہ پیٹ کے کیڑوں کیلئے بھی زہر قاتل ہے۔ پیشاب آور ہونے کی وجہ سے یورک ایسڈ کی زیادتی اور استسقاء کا بھی علاج ہے، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے زرعی
ماہرین نے بتایا ہے کہ گاجر کے کاشتکار جدید پیداواری عوامل اپنا کر نہ صرف عوام کو سستی گاجر فراہم کر سکتے ہیں بلکہ اپنی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ بھی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ گاجر کا آبائی وطن افغانستان ہے اب یہ پوری دنیا میں کاشت کی جاتی ہے اس کا سلاد، اچار اور حلوہ مقبول عام ہے۔ طبی ماہرین کی ایک تحقیقاتی ٹیم کے مطابق گاجر کینسر کی گلٹیاں بننے کا عمل روک دیتی ہیں یہ سرد آب و ہوا کی فصل ہے۔
بیج کے اگائو کیلئے ۷تا ۲۴ ڈگری سینٹی گریڈ مثالی درجہ حرارت ہے۔ اسی طرح۲۰ تا ۲۵ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ سے زیادہ پیداوار اور اچھی گاجر لینے کیلئے انتہائی مناسب ہے۔ گاجر ہر قسم کی زمین میں کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہے لیکن اچھی پیداوار کیلئے گہری میرا زمین اور اگیتی پیداوار کیلئے ریتلی میرا درکار ہوتی ہے۔ چکنی زمین میں کئی جڑوں والی چھوٹی چھوٹی گاجر بننے کا امکان ہوتا ہے جبکہ بہت زیادہ نامیاتی مادہ والی زمین میں بھی گاجر کی کوالٹی اور رنگت خراب ہو جاتی ہے۔ لہٰذا خوبصورت لمبی اور ہموار گاجر پیدا کرنے کیلئے ہلکی میرا زمین ہی بہتر رہتی ہے۔ گاجر کی ترقی دادہ قسم ٹی ۲۹ ہے جو کہ اعلیٰ پیداواری صلاحیت کی حامل ہے اور بیماریوں کے خلاف بہتر قوت مدافعت رکھتی ہے۔ پنجاب میں گاجر کی پچھیتی کاشت اکتوبر کے آخر تک جاری رہتی ہے۔
ستمبر کا دوسرا ہفتہ پنجاب میں اس کی کاشت کیلئے نہایت موزوں ہے۔ درآمد شدہ اقسام نومبر تا دسمبر کاشت ہوتی ہیں۔ بوائی سے پہلے اگر بیج ۱۲ گھنٹے پانی میں بھگو لیا جائے تو شرح اگائو میں اضافہ ممکن ہے۔ اچھی قسم کا صحت مند اور زیادہ روئیدگی والا بیج جو جڑی بوٹیوں سے پاک و صاف ہو استعمال کرنا چاہیے۔ تجربات کی روشنی میں ۶تا ۸ کلو گرام بیج ایک ایکڑ کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اگیتی فصل کی صورت میں شرح بیج ۱۵ کلو گرام فی ایکڑ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ گاجر لمبی جڑ والی فصل ہے۔ اگر زمین اچھی طرح تیار نہ ہو اور اس میں مٹی کے ڈلے اور گوبر کی کچی کھاد موجود ہو تو گاجر کی شکل اور رنگ پوری طرح نشوونما نہیں پاتی۔ لہٰذا زمین خوب گہرائی تک نرم اور بھربھری ہونا ضروری ہے۔