1.5ملین گردوں کے مزمن بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو ڈیالسنزدیا جارہاہے یا انہیں گردوں کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں گردوں کے امراض میں ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر اور امراضِ قلب سے ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو مریض کو ناکارہ بنا دیتے ہیں یا اسے موت سے ہمکنار کرواتے ہیں۔ اگرگردوں کی بیماریوں کا بروقت تشخیص دیا جائے اور مناسب وصحیح علاج معالجہ بہم پہنچایا جائے تو مریض نہ صرف مرض کی پیچیدگیوں سے بچ کرنا رمل زندگی گذار سکتاہے بلکہ اس کی زندگی کے ماہ و سال میں بھی اضافہ ہوسکتاہے۔
گردوں کی بیماریوں میں روز افروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔ کشمیر میں ہزاروں لاکھوں لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں مگر وہ بے خبری کے عالم میں زندگی کی شاہراہ پر ”رینگ ”رہے ہیں۔ان کے علامات اتنے واضع یا شدید نہیں ہوتے کہ وہ کسی معالج سے مشورہ کرنے کے بارے میں سوچ سکیں۔ گردوں کے دیرینہ یا مزمن مرض میں مبتلا ہونے کے بعد گردوں کی ناکامی میں مبتلا ہونے کے درمیان برسوں کا فاصلہ ہوتاہے۔ بعض لوگ گردوں کے دیرینہ امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ایک ”نارمل” زندگی گذارتے ہیں۔ انہیں کبھی گردوں کی ناکامی کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتاہے۔ بہرحال ”عام اور سیدھے سادے لوگوں ”کے لئے گردوں کی بیماریوں سے متعلق جانکاری ایک ”طاقت ” ہے۔ اگر وہ گردوں کی بیماریوں کے علامات کی جانکاری رکھتے ہوں تو وہ مرض میں مبتلا ہوتے ہی کسی معالج سے مشورہ کرسکتے ہیں۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی آشنا درج ذیل علامات میں سے ایک یا ایک سے زیادہ کا اظہار کرتاہے تو آپ کو فوری طورکسی ماہر معالج سے مشورہ کرناچاہئے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بعض علامات گردوں کی بیماریوں کی بجائے کسی اور بیماری کی وجہ سے بھی ہوسکتے ہیں۔
علامت نمبر:۱
پیشاب کیا ہے ؟
ہر انسان میں ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف دوگردے ہوتے ہیں۔ ان کا کام جسم کے اندر موجود محلول(پانی)اور دیگر مائع جات کو فلٹر کرنا ہے اور جسم سے ردی ، فالتو اور زہریلا مواد جارج کرناہے۔ پانی اور نمکیات کی مقدار کو طبعی حدود میں رکھنے کے علاوہ بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا ہے اور خون میں خلیات کی تعداد کومقررہ مقدار میں رکھنے کے لئے ہارمون ترشح کرناہے۔ اگر گردوں یا اس کے ساتھ وابستہ اعضاء میں کوئی خرابی یا بیماری ہو تو پیشاب کے رنگ اور بہاؤ میں بدلاؤآسکتاہے۔
آپ کے پیشاب کا رنگ بدلا ہواہے ، نارمل پیشاب ہلکے قہوہ رنگ کا ہوتاہے۔ اگر یہ لال ، زیادہ پیلا ، پیلا ، سبز ، کالا ، سفید دودھیا، زیادہ جھاگ دار ،نیلا ،نارنجی یا گہرے رنگ کا ہو تو فوری آزمائش ادرارکریں۔آپ کو بار بار پیشاب پھیرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ بہت زیادہ یا بہت کم پیشاب پھیرتے ہیں۔
پیشاب روک روک کر آتاہے۔ پیشاب پھیرتے وقت ہچکچاہٹ ، جلن یا سو زش محسوس ہوتی ہے۔
اگر جلدی سے باتھ روم نہ پہنچے تو پیشاب قطرہ قطرہ ٹپکنے لگتاہے یا اس پر کنٹرول ہی نہیں رہتاہے۔
ایسامحسوس ہوتاہے جیسے پیشاب پھیرنے کے بعد ابھی مثانہ پوری طرح خالی نہیں ہواہے۔
پیشاب کے ساتھ (یاپیشاب پھیرنے سے پہلے یا آخر میں )خون بھی آتاہے۔
پیشاب پھیرتے وقت زور لگا نا پڑتاہے تاکہ مثانہ خالی ہو جائے۔
رات کو دو تین بار جاگنا پڑتاہے۔ پیشاب پھیرنے کے لئے جاگنے کی وجہ سے نیند میں خلل پڑتاہے۔
علامت نمبر:۲
جب گردوں کو کوئی مرض بہت دیر تک اپنی لپیٹ میں لئے پھرے تو دونوں گردے دھیرے دھیرے خستہ ہوجاتے ہیں اور وہ اضافی پانی جسم سے خارج کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں جس سے پیروں ، ٹخنوں ، ٹانگوں ، ہاتھوں میں اور چہرے پر ورم ظاہر ہوجاتاہے۔صبح کے وقت آنکھوں کے نچلے حصوں میں ورم نمایاں ہوتاہے اور ٹانگوں ،پیروں ،ٹخنوں پر اگر ہاتھ کے انگوٹھے سے دباؤڈالا جائے تو دبانے کی جگہ گڑھا جیسا نمودار ہوجاتاہے۔
علامت نمبر:۳
تھکاوٹ : صحت مند گردے ایک انتہائی اہم ہارمون اریتھروپوئیٹین بناتے ہیں۔یہ ہارمون جسم کے خلیات کو آکسیجن پہنچانے والی (خون میں موجود) سرخ خلیات کو بنانے میں اہم ترین رول اداکرتاہے۔ جب گردے صحیح ڈھنگ سے اپنا کام انجام دینے میں ناکام ہوں تو اس اہم ہارمون کی کمی واقع ہوجاتی ہے ،نتیجہ یہ کہ سرخ خلیات کی تعداد میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے۔ اس لئے دماغ اور عضلات جلدی تھک جاتے ہیں اور مریض تھکاوٹ محسوس کرتاہے، آے ہروقت اپنا آپ خستہ وکوفتہ لگتاہے۔
علامت نمبر:۴
الرجی،خارش: انسانی جسم میں دو گردے جھاڑ پونچھ اور صفائی کا کام کرتے ہیں۔ یہ جسم سے فالتو زہریلا مواد جارج کرنے میں اپنا اہم رول نبھاتے ہیں۔ جب گردے کسی بیماری کی و جہ سے روٹھ جائیں تو یہ زہریلا اور غیر ضروری مواد خارج نہیں کرسکتے ہیں اور وہ مواد جسم میں جمع ہوجاتاہے۔ مریض کو ہروقت جسم کی جلد پر حساسیت (الرجی)نظر آتی ہے او راسے ہروقت جلد کھجلانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔بسااوقات اسے یوں محسوس ہوتاہے جیسے نہ صرف جلد بلکہ ہڈیوں کے اندر بھی خارش ہورہی ہے۔ مریض اتنی شدت سے جلد کو رگڑتاہے کہ کسی وقت اس کی جلد زخمی ہوجاتی ہے اور اس سے خون بہنے لگتاہے۔ مریض کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی جلد میں دراڑیں پڑی ہوں او روہ ایک عجیب سی بے قرار ی کا شکار ہوجاتاہے۔
(جاری)
علامت نمبر:۵
منہ میں معدنی ذائقہ: جب گردوں کی بیماری طویل مدت تک مریض کو اپنی گرفت میں لئے رکھے تو گردے خون میں موجود زہریلا مواد ،یوریا جسم سے رفع کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ یوریاجسم کے خون کے اندر جمع ہوجاتاہے اس کی سطح بڑھتی جاتی ہے اور مریض یوریمیامیں مبتلا ہوجاتاہے۔ مریض جو کچھ کھاتاہے اسے عجیب سا ذائقہ محسوس ہوتاہے۔ اسے یوں لگتاہے جیسے اسے کوئی معدن چبنانا پڑتی ہے۔ بعض مریض کہتے ہیں کہ ” ان کا منہ بدمزہ ہے” اور انہیں یوں محسوس ہورہاہے جیسے وہ پگھلا ہوا سیسہ نگل رہے ہوں۔ مریض کی بھوک بالکل ختم ہوجاتی ہے او راسے کھانے پینے سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ مریض کو گوشت کھانے سے شدید نفرت ہوجاتی ہے۔ وہ گوشت کو دیکھتے ہی منہ پھیرتاہے۔ چونکہ مریض کی بھوک ختم ہوجاتی ہے اس لئے آس کے جسم میں پروٹین ، کاربوہائیڈریٹ ، وٹامن اور نمکیات کی کمی ہوتی ہے اور اس کا وزن کم ہوجاتاہے اور وہ حد سے زیادہ کمزوری محسوس کرتاہے۔ وہ کوئی بھی کام انجام دینے میں ناکام ہو جاتاہے۔
علامت نمبر:۶
آبکائی ، الٹی: جب گردوں کو کوئی مزمن بیماری گھیر لے تو وہ نیم مردہ ہوجاتے ہیں اور خون میں غیر ضروری یا زہریلے مواد ،یوریا کی سطح بڑھتی رہتی ہے۔ یوریا کی سطح بڑھنے سے مریض پہلے آبکائی محسوس کرتاہے اور اگر اسے علاج میسر نہ ہوا تو اسے الٹیوں کی شکایت لاحق ہوجاتی ہے۔ آبکائی سے پہلے شدید خارش اور بے قراری بھی ہوسکتی ہے۔ بھوک بالکل نہیں لگتی ہے۔ مریض آبکائی اور آلٹی کے ڈر سے کھانا پینا ترک کرتاہے اس سے مریض ”جنرل کمزوری” محسوس کرتاہے اور اس کا وزن گھٹ جاتاہے۔ آلٹی آنے کی وجہ سے مریض دیگر بیماریوں کے کنٹرول کیلئے روز مرہ کی ادویات بھی نہیں لے سکتاہے۔
علامت نمبر:۷
تنگی نفس (سانس کا پھول جانا) : جب گردوں کی بیماری ایک خاص مقام پر پہنچتی ہے تو دیگر علامات کے علاوہ مریض کی سانس ”تنگ ” ہوجاتی ہے یا پھولنے لگتی ہے۔ وہ سینے پر عجیب قسم کا دباؤ محسوس کرتاہے۔ اس کے دووجوہات ہیں۔پھیپھڑوں میں اضافی پانی جمع ہوجاتاہے۔ خون میں سرخ خلیات کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے جس سے پھیپھڑوں اور جسم کے دیگر خلیات اور نسیجوں تک آکسیجن طبعی مقدار میں نہیں پہنچ پاتاہے اور آکسیجن کی کمی سے مریض دوچارِ تنگی نفس ہوجاتاہے۔مریض کی سانس پھولتی ہے وہ گھبراجاتاہے ، اس کی نیند اس سے روٹھ جاتی ہے۔ کیونکہ لیٹ جانے سے اس کی سانس زیادہ پھولتی ہے۔ وہ اپنے سینے پر دباؤمحسوس کرتاہے اور وہ بے چین ہوجاتاہے۔اس کی زندگی اس کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔
علامت نمبر:۸
سردی کا احساس: جب کوئی مریض گردوں کی کسی مزمن بیماری میں مبتلا ہو اور اس کے گردے اپنا کام صحیح ڈھنگ سے انجام دینے میں ناکام ہورہے ہوں تو اسے دوسرے صحت مند لوگوں کے مقابلے میں سردی کاحد سے زیادہ احساس ہوتاہے۔ جب دوسرے لوگ گرمی کی شکایت کررہے ہوں تو وہ مریض سردی سے کانپ رہاہوتاہے۔ مریض کو یوں محسوس ہوتاہے جیسے اسے برف کی ڈلی پر لٹا دیا گیا ہو یا یخ بستہ کمرے میں قید کیا گیا ہو،ایسا اس لئے ہوتاہے کہ اسے خون کی کمی ہوتی ہے یعنی اس کے جسم میں سرخ خلیات کی تعداد اتنی کم ہوئی ہوتی ہے کہ اس کی جلد تک حرارت پہنچ نہیں پاتی ہے۔
علامت نمبر:۹
سر چکرانا اور…: گردوں کی ناکامی سے جسم میں خون کی کمی واقع ہونے سے دماغ کی آکسیجن سپلائی بری طرح متاثر ہوتی ہے جس سے مریض کا سر چکراتاہے ، اسے یوں لگتاہے جیسے اس کے سر میں گیس بھری ہوئی ہے یا سر خالی خالی سا ہے۔ اسے کسی خاص کام پر توجہ مرکوز کرنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔ اس کی یاداشت میں خلل پڑتاہے۔ وہ اکثر چیزیں بھول جاتاہے۔اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا رہتا ہے۔ کانوں میں شور شرابہ ہوتاہے اور وہ ایک عجیب سی بے قراری محسوس کرتاہے۔ وہ کوئی کام بھی نہیں کرسکتاہے۔اس پر ہر وقت سستی اور کاہلی سی طاری رہتی ہے۔ وہ اپنے آپ سے بے زار ہوجاتاہے۔
علامت نمبر:۱۰
درد:کمر کے نچلے حصے، پہلو یا ٹانگ میں درد گردوں کی کسی مزمن بیماری کی علامت ہوسکتاہے۔ کمر کے نچلے حصے میں درد پیٹ کے دونوں طرف (وسط میں )یا متاثرہ گردہ(دائیں یا بائیں ) کے طرف ٹانگ یا کولہو میں درد ، گردوں کی بیماری کی طرف اشارہ ہوسکتاہے۔ گردوں میں اگر کئی رسولیاں ظاہرہوں اور ان میں اضافی پانی جمع ہو تو درد شروع ہوتاہے۔ کمر میں درد کے علاوہ رات کو کئی بار باتھ روم جانا پڑتاہے۔ بعض مریض درد کی شدت سے بستر سے چپک جاتے ہیں۔ بسااوقات رات کے وقت درد اتنا شدید ہوتاہے کہ عورت ذات کو دردِ زہ کی یاد آتی ہے۔ مریض درد سے بے قرار ہوجاتاہے اور وہ کروٹیں بدلتا رہتاہے۔ اسے فوری ضد درد ادویات کی ضرورت پڑتی ہے