ہندوستان کیشمالی ریاست اتر پردیش کے پسماندہ اضلاع میں ‘گلابی گینگ’ نامی یہ گینگ جہیز، گھریلو تشدد، بچپن میں شادیاں اور دیگر مسائل پر کام کرتا ہے—تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنس۔
ممبئی: ہندوستان میں گلابی ساڑھیاں پہنے اور ہاتھوں میں ڈنڈے لیے دیہی خواتین کے حقوق کیلئے لڑنے والی خواتین پر انعام یافتہ دستاویزی فلم اس ہفتے ریلیز ہونے جارہی ہے۔
شمالی ریاست اتر پردیش کے پسماندہ اضلاع میں ‘گلابی گینگ’ نامی یہ گینگ جہیز، گھریلو تشدد، بچپن میں شادیاں اور دیگر مسائل پر کام کرتا ہے۔
جمعہ کو ہندوستان بھر میں ریلیز ہورہی ڈائریکٹر نشتھا جین کی دستاویزی فلم کی کہانی گینگ کی بانی اور سربراہ چھپن سالہ سمپت پال دیو کے ارد گرد گھومتی ہے۔
خیال رہے کہ اسی موضوع پر ایک علیحدہ کمرشل بولی وڈ فلم ‘گلاب گینگ’ بھی ریلیز کے لیے تیار ہے جس کے موضوع کو فلم کے ہدایت کار سومک سین افسانوی قرار دیتے ہیں۔
دوسری جانب، ہدایت کار جین کی دستاویزی فلم میں ہزاروں ارکان پر مشتمل گینگ کے کام اور اس میں بھرتیوں کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جین نے بتایا کہ انڈیا کے سب سے پسماندہ حصوں میں خواتین کی اچانک ایسی تحریک کے پھیلنے نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچی اور وہ یہ فلم بنانے پر مجبور ہو گئیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ فلم میں صرف گروپ کی سربراہ کو ہی نہیں بلکہ اس میں شامل غریب، بوڑھی اور نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والی رضاکاروں کے کام پر بھی روشنی ڈالنا چاہتی تھی۔
فلم کا آغاز ایک نوجوان بیوی کے جل کر ہلاک ہونے کے واقعے سے ہوتا ہے، جس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ آگ کھانا بنانے کے دوران لگی۔
پال اور ان کی ساتھیوں کو معاملے میں گڑ بڑ لگتی ہے اور وہ معاملے کی جان فشانی سے تحقیقات شروع کردیتی ہیں۔
وہ لڑکی کے والدین کو مدد کی پیشکش کے علاوہ یقینی بناتی ہیں کہ پولیس تیزی سے واقعہ کی تحقیقات مکمل کرے۔
اس گینگ کے کام کرنے کے طریقہ کار میں احتجاج، ثالثی، کونسلنگ اور سنگین کیسوں میں وقت پڑنے پر جارحیت کا مظاہرہ بھی شامل ہے۔
تاہم معاشرے میں خواتین کے لیے گہرے تعصب کی وجہ سے گروپ کو شدید دشواری کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گزشتہ ہفتے فلم کی اسکریننگ میں شریک گینگ کی رہنما پال کا کہنا تھا کہ وہ صرف خواتین کے حقوق کے لیے کام نہیں کرتیں۔
‘میری کوشش ہوتی ہے کہ میں دونوں کے نقطہ نظر سمجھوں کیوں کہ جب کوئی شادی ناکام ہوتی ہے تو دونوں کے ہی گھر تباہ ہوتے ہیں۔’
انہوں نے امید ظاہر کی کہ فلم کے ذریعےخواتین کے مسائل ناصرف اجاگر ہوں گے بلکہ انہیں سمجھنے کا موقع بھی ملے گا۔
ناروے اور دبئی میں بہترین دستاویزی فلم کا انعام حاصل کرنے والی اس فلم نے انڈیا میں موجود دیہی اور شہری خلیج کو بھی نمایاں کیا ہے۔