رنگوں کے انتخاب کے معاملے میں دنیا بھر میں لڑکیاں زیادہ تر گلابی اور لڑکے نیلے رنگ کو ترجیح دیتے ہیں اوریہ رنگ ان دونوں جنسوں کی پہحان سمجھے جاتے ہیں۔ مگر دوسری جنگ عظیم تک پسند اور شناخت کا میعار بالکل الٹ تھا اور گلابی رنگ لڑکوں اور نیلا لڑکیوں سے منسوب کیا جاتا تھا۔گلابی رنگ شاید تمام لڑکیوں کا پسندیدہ نہ ہو اوردوسرے رنگ بھی ان کے لیے کشش رکھتے ہوں مگر دنیا بھر عموماً گلابی رنگ کوخواتین بالخصوص لڑکیوں سے منسوب کیا جاتا ہے اوران کے ملبوسات اور عام استعمال کی اکثر اشیاء میں گلابی رنگ کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکانوں
پر آپ کو لڑکیوں کے ملبوسات میں گلابی رنگ واضح طورپر دکھائی دے گا۔ نوزائیدہ اور شیر خوار بچیوں کے زیادہ تر ملبوسات تو ہوتے ہی گلابی رنگ کے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کے استعمال کی دوسری چیزیں، مثلاً ان کے اسکول بیگ، کاپیوں کے کور، پنسلیں ، قلم اور اسٹیشنری کی اکثر چیزوں میں گلابی رنگ زیاد ہ نظر آئے گا۔مغربی ممالک کے اکثر گھروں میں لڑکیوں کے کمروں میں گلابی پینٹ کیا جاتا ہے اور اس کمرے کا فرنیچر اور روزمرہ ضرورت کی دوسری اشیاء بھی گلابی یا اس کے ملتے جلتے شیڈز کی ہوتی ہیں۔ویلنٹائن ڈے کے موقع پردنیا بھر میں گلابی اور سرخ رنگ کے پھول اور کارڈ کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔ایسے والدین بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنی بچیوں کو پیار سے پنکی یا روزی یا گلابو کہہ کر پکارتے ہیں۔جس کی ایک واضح مثال بے نظر بھٹو کی ہے جنہیں گھر میں پنکی کہا جاتاتھا۔
رنگ کی شناخت صرف لڑکیوں اور خواتین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس دائرے میں لڑکے اور مرد بھی آتے ہیں اور نیلے رنگ کو ان سے منسوب کیا جاتا ہے-
گارمنٹس کی دکانوں میں مردوں کے زیادہ تر لباس نیلے یا اس سے ملتے جلتے شیڈز میں ہوتے ہیں- آپ کو اچھے گرم مردانہ سوٹ زیادہ تر گہرے سے ہلکے اور سیاہی مائل نیلے رنگوں میں ہی ملیں گے۔ برانڈ کمپنیاں مردوں کی شیونگ کریمیں ،جل ، شیمپو اور روزہ مرہ استعمال کی دوسری اشیاء زیادہ تر نیلی پیکنگ میں ہی فروخت کے لیے پیش کرتی ہیں۔
اکثر گھروں میں لڑکوں کے کمروں میں نیلا رنگ کیا جاتا ہے۔ ان کی اسٹیشنری کی زیادہ تر اشیاء بھی اسی رنگ کی ہوتی ہیں۔کیا جنس کے اعتبار سے رنگوں کی پسند انسان کے جین میں شامل ہے؟ اس کی وجہ نفسیاتی ہے یا اس کا تعلق ثقافتی روایات اور تاریخ سے ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کاجواب نفی میں ہے۔زیادہ دور پرے کی بات نہیں ہے رنگوں کی یہ تخصیص بالکل الٹ تھی۔ آج سے صرف چھ عشرے پہلے تک یہ سمجھاجاتاتھا کہ گلابی اور سرخ رنگ لڑکوں اور مردوں کے لیے ہوتے ہیں جب کہ لڑکیوں کو نیلا رنگ پہننا چاہیے۔اس سوچ میں تبدیلی کا آغاز غالباً پچھلی صدی کے ابتدائی برسوں میں ہوا، جس کی بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی – خاص طور پر لڑکیوں کو گلابی رنگ کے کپڑے پہنانے کے خلاف اخبارات نے مہم چلائی۔ ایک امریکی اخبار’ سنڈے سینٹی نل‘مارچ ۱۹۱۴ء کی ایک اشاعت میں لکھا کہ اگر آپ اپنے چھوٹے بچوں کو رنگوں کی شناخت دینا چاہتے ہیں تو لڑکوں کے لیے گلابی اور لڑکیوں کے لیے نیلے رنگ کاانتخاب کریں۔
اسی طرح ایک اور جریدے’ لیڈیز ہوم جرنل‘ نے جون ۱۹۱۸ء میں اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ اگرچہ رنگوں کے چنای کے مسئلے پر کافی تنوع پایا جاتا ہے مگر ایک تسلیم شدہ اصول یہ ہے کہ گلابی رنگ لڑکوں کے لیے ہے جب کہ نیلا لڑکیوں کے لیے ہے۔اس دور کے کئی ناولوں اور کہانیوں میں بھی جہاں کرداروں کے لباس کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں زیادہ تر لڑکیاں نیلے اور لڑکے گلابی رنگوں میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔گلابی اور نیلے رنگ کی یہ بحث لگ بھگ چار عشرے تک چلی اور۱۹۵۰ ء کے لگ بھگ رنگوں کی مروجہ ترتیب الٹ گئی ۔ جس کے بعد یہ تسلیم کرلیا گیا کہ گلابی لڑکیوں اور نیلا لڑکوں کا رنگ ہے۔اس تبدیلی میں دو چیزوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ پہلا ہٹلر کی نازی حکومت اور دوسرا ریڈی میڈ گارمنٹس بنانے والی برانڈ کمپنیوں نے-
لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کئی سوسال تک نیلے کو لڑکیوں اور گلابی کو لڑکوں کا رنگ کیوں سمجھا جاتا رہا- مغربی معاشرے میں اس کی کڑیاں قبل از مسیح کے دور سے ملتی ہیں- روایات کے مطابق حضرت مریم نیلالباس پہنتی تھی- ان سے عقیدت کے اظہار کے لیے عیسائی معاشروں میں لڑکیوں کو نیلالباس پہنایا جاتاتھا- ماضی میں یہ تصور بھی عام تھا کہ چونکہ آسمان نیلا ہوتا ہے اس لیے یہ رنگ تقدس اور پاکیزگی کی علامت ہے -چنانچہ لوگ اپنی بچیوں کو نیلے لباس میں دیکھنا پسند کرتے تھے۔ہمارے ہاں آج بھی لڑکیوں کے اکثر اسکولوں کا یونیفارم نیلا ہے اور دنیا کے اکثر ملکوں میں گرل کائیڈ ز نیلا لباس پہنتی ہیں جس کی بنا پر ہمارے ہاں انہیں نیلی چڑیا بھی کہاجاتا ہے۔
ماضی میں گلابی رنگ کی کوئی اپنی علیحدہ حیثیت نہیں تھی اور اسے سرخ رنگ کے ایک شیڈ کے طورپر دیکھا جاتاتھا۔ چونکہ جنگوں میں مرد حصہ لیتے تھے اور اپنا خون بہاتیتھے جس کا اظہار وہ سرخ لباس پہن کرکرتے تھے- ماضی کی پینٹنگز میں اعلیٰ حکومتی عہدے داروں ، فوجیوں اور معززین کے ملبوسات میں سرخ رنگ کی جھلک نمایاں طورپر دکھائی دیتی ہے۔
لیکن چین کا ماضی ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ قدیم چین میں لڑکوں کو نیلے اور لڑکیوں کو سرخ کپڑے پہنائے جاتے تھے۔ اس کی وجہ خالصتاً معاشی تھی۔ ماضی میں کپڑے کو نیلا رنگ دینا خاصا مہنگا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں سرخ رنگ پر سب سے کم خرچ آتاتھا۔اکثر مشرقی معاشروں کی طرح چین میں بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی تھی اس لیے لڑکوں کو نیلے اور لڑکی کو سرخ کپڑے پہنائے جاتے تھے۔اس قدیم روایت کو مایزئے تنگ نے توڑ کر پوری قوم کو نیلی یونیفارم پہنا دی۔
اس تبدیلی میں جرمن نازیوں نے غیر دانستہ طورپر اہم کردار ادا کیا- نازیوں نے اپنی جیلوں میں قیدیوں کے لیے مختلف رنگوں کے لباس مقرر کررکھے تھے تاکہ دور سے ہی پہچان لیا جائے کہ وہ کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔مثلاً وہ یہودیوں کو نیلا اور ہم جنس پرستوں کو گلابی یونیفارم پہناتیتھے۔ چنانچہ رفتہ رفتہ گلابی رنگ نسوانیت کی علامت بن گیا اور یورپ اورمغربی ممالک کے ہم جنس پرستوں نے اس رنگ کو اپنی شناخت کے طورپر تسلیم کرلیا۔اب ان کی تقریبات میں یہ رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے اور ان کی معاشی سرگرمیوں کو پنک برنس یعنی گلابی کاروبار کہاجاتا ہے-
غالباً ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ ریڈی میڈ ملبوسات کی کمپنیوں نے لڑکیوں کے لباس ڈیزائن کرتے ہوئے گلابی رنگ کو ترجیح دینی شروع کردی، پھر گڑیاں ، کھلونے اور بچیوں کے استعمال کی چیزیں تیار کرنے والی کمپنیاں بھی اس جانب راغب ہونے لگیں اوراس کے بعد کے برسوں میں گلابی رنگ نے تقربیاً دو ہزار سال سے مروج نیلے رنگ کو نکال کر دنیا بھر میں قبولیت اور مقبولیت کی سند حاصل کرلی۔