عشروں سے محققین ٹی بی انفیکشن میں مبتلا بچوں کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس کی ایک جزوی وجہ یہ بھی ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں ٹی بی میں مبتلا بچوں سے اس مرض کے جراثیم کی دیگر انسانوں کو منتقلی کے آثار کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔دنیا بھر میں ہر سال ۳۲؍ ہزار بچے ادویات کے خلاف مزاحمت کے حامل ’سْپر بَگز‘ کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ بَگز ٹی بی یا تپ دق کے جرثومے کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکی محققین پہلی بار اس مہلک عارضے میں مبتلا بچوں کی تعداد کے بارے میں نئے اندازے منظر عام پر لائے ہیں۔اس بارے میں پیش کیے جانے والے تازہ ترین مطالعاتی جائزے کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال ٹی بی یا تپ دق کے مرض میں مبتلا ہو جانے والے بچوں کی تعداد ایک ملین ہے۔ یہ تعداد ماضی میں لگائے گئے اندازوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس جراثیم کا شکار ہونے والے بچوں میں سے محض ایک تہائی میں ہی اس بیماری کی تشخیص ہو پاتی ہے۔امریکی ریاست میساچوسیٹس کے شہر بوسٹن میں قائم ’برِگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل‘ کے گلوبل ہیلتھ کے شعبے سے تعلق رکھنے والی ہیلن جَینکِنز کے بقول بچوں کی ایک بڑی تعداد تپ دق کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوکر بلاوجہ ہلاک ہو رہی ہے۔ جَینکِنز اس مطالعاتی جائزے کے نتیجے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار
مرتب کرنے والے ماہرین کی ٹیم کی سربراہ ہیں۔ اس ریسرچ کی تفصیلات۲۴ مارچ کو ٹی بی کے عالمی دن کے موقع پر معروف طبی جریدے لَینسٹ میں شائع ہوئیں۔اس رپورٹ سے پہلی بار دنیا بھر میں ٹی بی کے مرض کا شکار ہونے والے کم عمر ترین انسانوں، یعنی بچوں کی تعداد اور multidrug- resistant tuberculosis یا تپ دق کے متعدد ادویات کے خلاف مزاحم جراثیم کے عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے رجحان کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کے ایک شریک مصنف اور ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک برِگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل کے ڈاکٹر ٹَیڈ کوہن اس بارے میں کہتے ہیں، ’’اس حقیقت کے باوجود کہ دنیا کی کْل آبادی کا ایک چوتھائی حصہ بچوں پر مشتمل ہے، اب تک یہ اندازہ نہیں لگایا گیا تھا کہ ’ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ ٹیوبرکیولوسس‘ کے شکار بچوں کی تعداد کتنی ہے۔‘‘عشروں سے محققین ٹی بی انفیکشن میں مبتلا بچوں کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس کی ایک جزوی وجہ یہ بھی ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں ٹی بی میں مبتلا بچوں سے اس مرض کے جراثیم کی دیگر انسانوں کو منتقلی کے آثار کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ تپ دق کی بچوں میں پائی جانے والی انفیکشن کی تشخیص اس لیے بھی مشکل ہوتی ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں میں یہ انفیکشن مختلف نوعیت کی نظر آتی ہے۔ٹی بی انفیکشن کا سبب وہ بیکٹیریا یا جراثیم بنتے ہیں جو براہ راست پھیپھڑوں پر حملہ کرتے ہیں اور یہ جراثیم عموماً ہوا کے ذریعے اْن لوگوں سے پھیلتے ہیں جو کھانسی کے فعال انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں۔ڈاکٹر ہیلن جَینکِنز نے ایک اہم نکتے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا، ’’بچوں میں ٹی بی کے جراثیم کے جسم کے کسی دوسرے حصے میں ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ جرثومہ پھیپھیڑوں میں ہی ہو۔ اگر یہ بچوں کے پھیپھڑوں میں موجود ہو بھی تو اس کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اس لیے یہ موجودہ تشخیص کے طریقوں کی مدد سے بھی نظر نہیں آتے۔‘‘عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق۲۰۱۲ میں ٹی بی کے شکار افراد کی تعداد ۶ء۸ ملین تھی جن میں سے ۳ء۱ ملین انسان اس مرض کا شکار ہو کر لقمہء اجل بن گئے۔ اسی سال نصف ملین انسان ٹی بی کے جراثیم کے حملے کے سبب بیمار ہوئے۔ ماہرین کے تازہ ترین اندازوں سے یہ خدشہ ظاہر ہوتا ہے کہ۲۰۱۵تک قریب دو ملین تک صحت مند افراد ’ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ ٹیوبرکیولوسس‘ یا تپ دق کے متعدد ادویات کے خلاف مزاحم جرثومے کا شکار ہو سکتے ہیں۔